پختونولی
خطہ پختنخواہ کو بینادی طور پر وسط ایشا کاحصہ ہنوے کے باوجد آج جنوبی اشیا سے منسلک
ہےاورصدیوں تک پختون بادشاہوں نے برصغیر پر حکومت کی ہے ۔۔ مگر ان کا زیادہ تر وقت
آپس کی چپقلشوںاور بیرونی حملہ آواروں کے ساتھ لڑائیوں میں گزارااور ہندوستان میں
پختونوں کی بہت بڑی آبادی ہونے کے باوجود پختون تہذیب کی جڑیں مستحکم نہ ہو سکیں
اور نہ پختون ثقافت کے دیرپا اثرات مرتب ہو سکے۔
پختون بادشاہوں اور حکمرانوں نے پشتو زبان اور ثقافت کی طرف کوئی توجہ نہ دی
پشتو انکی درباری اور سرکاری زبان نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی دفتری اور تجارتی
ادراوں میں پشتو زبان اور کلچر کو فروغ حاصل نہ ہو سکا۔۔البتہ شیر شاہ سوری کے عہد میں
انکی اعلی انتظامی صلاحیتوں اور منعظم مواصلاتی و تعمیراتی نظام کے سبب بعض تہذبی
آثار آج بھی دیکھے اورمحسو س کئے جا سکتے ہیں۔۔اس کے علاوہ پشتو شعر و ادب کی
کلاسیکی روایات موجود رہی ہے۔۔۔۔اورمغلوں کے دور میں بھی پشتو کلاسیک شاعری کے ساتھ
ساتھ عوامی ادب اورقصے کہانیوں کا بڑا ذخیرہ ایک قومی ثقافتی ورثے کے طور پر
تخلیقی احساس اور شعور کے حوالے سے پشتو ادبی تاریخ میں جگہ پاسکا۔۔اورآج بھی اسے
ادبی تاریخی اور ثقافتی سرگرمیوں میں ایک نمایاں مقام حاصل پے۔
المیہ تو یہ ہےکہ قیام پاکستان کے بعد بھی پشتو زبان ادب ثقافت کی ترقی اورترویج کی
طرف کوئی توجہ نہیں دی گئی۔۔۔پختون معاشرے کے یہ شعبے آج بھی سرکاری سرپرستی
نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطع پر ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دے سکے اورثقافت
کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنے اور ترقی دینے کے لیے موثرادارے قائم نہیں ہوئے
اور پرانے اداروں اور روایتی ثقافتی ورثےکی بھی حفاظت نہیں کی گئی۔۔
یہ ایک تاریخی حقیقت( واقعاتی )ہے کہ چھ ہزار سال پرانی تاریخ کی حامل پختون قوم
کے مختلف ادوار میں جعرافئیے کی تقسیم در تقسیم سرحدی ( جعرافیائی ) حد بندیوں کے
باوجود ثقافتی طور پر ایک قومی وحدت ہونے کا ثبوت دیا ہے، ثقافتی تنوع اور رنگا رنگی
میں ایک مشترکہ ثقافتی بلکہ اجتماعی معاشعرتی زندگی میں گوناگوں سرگرمیوں
کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے تاریخ و جعرافیہ کے بدلتے ہوئے حالات و مقامات میں
عصری تقاضوں کے مطابق تہزیبی حسن کی کثرت میں وحدت اور اسکی صداقتی و حدت
میں کثرت کا نمونہ پیش کیا ہے۔۔۔ اور فاصلوں کی دوری کے باوجود ایک مخصوص تاریخی
تناظر اور اکائی کے پیمانے پر پورا اتری ہے اور قبائلی معاشرےمیں بھی قبیلوی تفریق ایک
مجموعی ثقافتی روایت کو برقرار رکھی ہوئی ہے جس نے پختون قوم کو قومی یکجہتی
کا ایک ایسا حسن عطا کیا ہے جسکی مثال دنیا میں نہیں ملتی ۔۔متنوع ثقافت کے اس حسن
و صداقت نے اسے ہر دور میں ممتاز و سرفراز کیا ہے اور غیروں کی غلامی قبول کرنے سے
انکار کی جرات عطا کر کے اجتماعی خود کشی سے محفوظ اور تاریخ کے جبر میں نیلام
و بدنام ہونے کے الزام سے بری الزامہ قرار دیا ہے
جاری ہے
Comment