مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب کی سرپرستی میں نکلنے والے ماہنامہ ”حیا“ کراچی کے شمارہ اگست 2012 میں ڈاکٹر محمد زاہد الحق قریشی کے مضمون ”عید کارڈ“ میں یہ حیرت انگیز تاریخی انکشاف کیا گیا ہے کہ برصغیر میں عید کارڈ کے رواج کا آغاز کب اور کیسے ہوا۔ مضمون کے مطابق کراچی کے روزنامہ” نئی روشنی“ کے مالک مدیر جی اے چوہدری کے والد محترم احمد بخش چوہدری نے 1962 میں اخبار کے اسٹاف کے اعزاز میں دی گئی ایک پارٹی میں حسب ذیل ”اعترافِ گناہ“ کیا جو بعد ازاں اخبار میں بھی شائع ہوا۔
مجھے اعتراف ہے کہ جب میں کسی مجبوری کے تحت حکومتِِ برطانیہ کا آلہ کار تھا تو مختلف معاشی
سہولتوں اور مراعات کے تحت انگریزوں کے مفادات کے لئے مختلف کام انجام دیا کرتا تھا۔پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعدمحکمہ داخلہ کے انگریز سیکریٹری نے مجھے پانچ ہزار عید کارڈ دئیے ، جو بطور خاص انگلینڈ سے چھپ کر آئے تھے۔ ان پر خانہ کعبہ، مسجد نبوی، کلمہ طیبہ، براق وغیرہ کی خوبصورت رنگین تصاویر تھیں۔ مجھے یہ تمام کارڈز ایک دھیلہ فی کارڈ فروخت کرنے کو کہا گیا ۔اس کام کے عوض مجھے حکومت برطانیہ نے فی کارڈ ایک ٹکا (دو پیسے) دینے کا وعدہ کیا۔ مجھے سختی سے ہدایت کی گئی کہ میں کسی کو بھی کوئی عید کارڈ بلا قیمت نہ دوں۔ حکومت کا خصوصی کارندہ ہونے کے سبب مجھے پورے بر صغیر میں ٹرین میں مفت سفر کی سہولت حاصل تھی۔ میں نے مزید تین افراد کے لئے بھی مفت سفر کی سہولت حاصل کی اور رمضان المبارک کے دوران میں اور میرے تینوں ساتھی دہلی سے کلکتہ تک ہر بڑے اسٹیشن پر اتر کر کتابوں اور اسٹیشنری کی دکانوں پر یہ کارڈ فروخت کئے اور عید سے قبل تک پانچ ہزار کارڈ فروخت کرکے کمیشن کھرے کر لئے۔بقر عید کی آمد سے قبل پھر ہمیں مذہبی تصاویر والے ایسے عید کارڈ دئے گئے جن پر عربی لباس پہنے ہوئے بچوں کی خوبصورت تصاویر تھیں۔ گو یہ بچے شکل و صورت سے انگریز بچے ہی لگتے تھے، لیکن یہ کارڈ بھی بآسانی فروخت ہوگئے۔تیسرے برس جو کارڈ ہمیں ملے، ان میں بچوں اور بچیوں کے لباس مختصر اور جدید فیشن کے مطابق تھے۔ چوتھے برس ہم نے پچاس ہزار کارڈ فروخت کرکے اچھی خاصی رقم کمالی۔ اس کے بعد انگریز سیکریٹری نے کہا کہ اب آئندہ کوئی کارڈ نہیں ملے گا، اگر اس سلسلہ کو جاری رکھنا ہو تو کارڈ خود چھپوالو۔ اگلے رمضان سے قبل پورے برصغیر کے کتب فروشوں کے خطوط اور آرڈر موصول ہونے لگے۔ ہم مالی لحاظ سے اس کاروبار کو از خودجاری رکھنے کے قابل بھی ہوگئے تھے، لہٰذا ہم نے مختلف چھاپہ خانوں سے عید کارڈ چھپوانے شروع کر دیئے۔ آج (یہ 1962 کا ”آج“ ہے) جب عید کارڈوں پر مسلمانوں کو کروڑوں روپے ضائع کر تے دیکھتا ہوں اور نیم عریاں فلمی ایکٹریسوں کی تصاویر والے عید کارڈز دیکھتا ہوں تو میں شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہوں کہ اس فحاشی اور قبیح رسم کا آغاز میرے ہاتھوں سے ہوا۔ میں نے سرکارِ برطانیہ کی خوشنودی اور پیسے کمانے کے لئے یہ گناہ عظیم اور قوم دشمن کام کیا۔ آپ سب میری بخشش کے لئے دعا کریں اور زندگی کے کسی بھی مرحلہ پر میری طرح ملت فروشی جیسے قبیح فعل میں لوث نہ ہوں۔“
انا للہ و انا الیہ راجعون
مجھے اعتراف ہے کہ جب میں کسی مجبوری کے تحت حکومتِِ برطانیہ کا آلہ کار تھا تو مختلف معاشی
سہولتوں اور مراعات کے تحت انگریزوں کے مفادات کے لئے مختلف کام انجام دیا کرتا تھا۔پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعدمحکمہ داخلہ کے انگریز سیکریٹری نے مجھے پانچ ہزار عید کارڈ دئیے ، جو بطور خاص انگلینڈ سے چھپ کر آئے تھے۔ ان پر خانہ کعبہ، مسجد نبوی، کلمہ طیبہ، براق وغیرہ کی خوبصورت رنگین تصاویر تھیں۔ مجھے یہ تمام کارڈز ایک دھیلہ فی کارڈ فروخت کرنے کو کہا گیا ۔اس کام کے عوض مجھے حکومت برطانیہ نے فی کارڈ ایک ٹکا (دو پیسے) دینے کا وعدہ کیا۔ مجھے سختی سے ہدایت کی گئی کہ میں کسی کو بھی کوئی عید کارڈ بلا قیمت نہ دوں۔ حکومت کا خصوصی کارندہ ہونے کے سبب مجھے پورے بر صغیر میں ٹرین میں مفت سفر کی سہولت حاصل تھی۔ میں نے مزید تین افراد کے لئے بھی مفت سفر کی سہولت حاصل کی اور رمضان المبارک کے دوران میں اور میرے تینوں ساتھی دہلی سے کلکتہ تک ہر بڑے اسٹیشن پر اتر کر کتابوں اور اسٹیشنری کی دکانوں پر یہ کارڈ فروخت کئے اور عید سے قبل تک پانچ ہزار کارڈ فروخت کرکے کمیشن کھرے کر لئے۔بقر عید کی آمد سے قبل پھر ہمیں مذہبی تصاویر والے ایسے عید کارڈ دئے گئے جن پر عربی لباس پہنے ہوئے بچوں کی خوبصورت تصاویر تھیں۔ گو یہ بچے شکل و صورت سے انگریز بچے ہی لگتے تھے، لیکن یہ کارڈ بھی بآسانی فروخت ہوگئے۔تیسرے برس جو کارڈ ہمیں ملے، ان میں بچوں اور بچیوں کے لباس مختصر اور جدید فیشن کے مطابق تھے۔ چوتھے برس ہم نے پچاس ہزار کارڈ فروخت کرکے اچھی خاصی رقم کمالی۔ اس کے بعد انگریز سیکریٹری نے کہا کہ اب آئندہ کوئی کارڈ نہیں ملے گا، اگر اس سلسلہ کو جاری رکھنا ہو تو کارڈ خود چھپوالو۔ اگلے رمضان سے قبل پورے برصغیر کے کتب فروشوں کے خطوط اور آرڈر موصول ہونے لگے۔ ہم مالی لحاظ سے اس کاروبار کو از خودجاری رکھنے کے قابل بھی ہوگئے تھے، لہٰذا ہم نے مختلف چھاپہ خانوں سے عید کارڈ چھپوانے شروع کر دیئے۔ آج (یہ 1962 کا ”آج“ ہے) جب عید کارڈوں پر مسلمانوں کو کروڑوں روپے ضائع کر تے دیکھتا ہوں اور نیم عریاں فلمی ایکٹریسوں کی تصاویر والے عید کارڈز دیکھتا ہوں تو میں شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہوں کہ اس فحاشی اور قبیح رسم کا آغاز میرے ہاتھوں سے ہوا۔ میں نے سرکارِ برطانیہ کی خوشنودی اور پیسے کمانے کے لئے یہ گناہ عظیم اور قوم دشمن کام کیا۔ آپ سب میری بخشش کے لئے دعا کریں اور زندگی کے کسی بھی مرحلہ پر میری طرح ملت فروشی جیسے قبیح فعل میں لوث نہ ہوں۔“
انا للہ و انا الیہ راجعون
Comment