اُس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر وہ کوچہ وہ مکاں یاد رہے گا
وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا
ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول جائینگے
وہ شمع فرسودہ کا دھواں یاد رہے گا
کچھ میر کے ابیات کچھ فیض کے مصرعے
اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا
جاں بخش سی تھی اس گل برگ کی تراوت
وہ لمسِ عزیزِ دو جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکین گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
وہ شہر وہ کوچہ وہ مکاں یاد رہے گا
وہ ٹیس کہ ابھری تھی ادھر یاد رہے گی
وہ درد کہ اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا
ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول جائینگے
وہ شمع فرسودہ کا دھواں یاد رہے گا
کچھ میر کے ابیات کچھ فیض کے مصرعے
اک درد کا تھا جن میں بیاں یاد رہے گا
جاں بخش سی تھی اس گل برگ کی تراوت
وہ لمسِ عزیزِ دو جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکین گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
Comment