Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Ahmed Nadeem Qasmi

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Ahmed Nadeem Qasmi

    مقدمہ شاعری
    لکیر الدین فقیر



    اپنی فنا سے مجھے بلا کی ضد ہے ندیم
    سبزہ بن کر اپنی ںکلا ہوں



    فنا اور بقا کا ربط باہم صدیوں سے ہمارے فکری اور شعری روایت کا ایک زرخیز
    موضوع چلا آرہا ہے۔۔میر کے نزدیک موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے اور اس پڑاو
    پر ذرا سا دم لے کر آگے چلنا لازم ہے تو اقبال کے ہاں موت تجدید مذاق ِ زندگی کا دوسرا نام ہے اور ندیم مرنے کو مٹنے کے مصداق نہیں مانتے اوربڑے تیقین کے ساتھ اعلان کرتے ہیں


    کون کہتا ہے کہ موت اآئی تو مر جاوں گا
    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا


    نظام فطرت میں کار فرما تخلیقی ارتقا کے اصولوں سے آگہی اور اسلام کے تصور کائنات کی معنونیت سے گہری شناسائی کی منزل تک رسائی سے پہلے ندیم اپنی اس منفرد غزل میں زندگی اور موت کو مفہوم کی کھوج میں سرگرداں نظر اآتے ہیں،،اس غزل کی پوری فضا تاریک اندیشی اور مقدر پرستی کی گرفت میں سانس لے رہی ہے

    طناب خیمہ گردوں ہوں اے فرشتہ موت
    میں آسمان کی خاطر زمین میں اتروں

    سیدھے راستوں کو چھوڑ کر بھٹکی ہوئی نیکیاں کمانے کے خوگر اور ساری دنیا میرا کعبہ سب انسان میرے محبوب کے مسلک پر کاربند ندیم کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ موت سے شروع ہپوانے والے مرحلہ حیات میں ان کی راہ میں کسی جہنم کا کوئی گزر نہیں بلکہ


    بہشت کی رفعتیں ابھی تک ندیم کے انتظار میں ہیں
    کہ اب بھی ذرے چمک رہے ہیں فلک پہ آدم کی راہگزر کے


    زندگی کے دائمی تسلسل کا راز ندیم پر مشاہدہ میں انہماک سے کھلا، لوح خاک سے سر پردہ افلاک تک پھیلے ہوئے طلسم زندگی کے اسرار پر انہوں نے جس زکاوت احساس اور بصیرت قلب سےغور کیا وہ ان کے معاصرین میں ناپید ہے۔۔گہرے باطنی احساس کے ساتھ فطرت کے خارجہ مشاہدات
    نے انہیں اندگی کی ابدیت کا عرفان بخشا ہے وہ مختلف اور متنوع پیرایوں میں ہمیں بتاتے ہیں کہ جہاں سے شاخ ٹوٹتتی ہے وہیں سے ایک نئی شاخ پھوٹتی ہے۔۔پھول ابھی پوری طرح جھڑنے بھی نہیں پاتے کہ خشک شاخوں پر آئندہ کے پھولوں کے نگینے سے نمودار ہونے لگتے ہیں اور یوں رفتہ رفتہ پت جھڑ کا طلسم توٹنے لگتا ہے۔۔



    ایک غزل دیکھیں ندیم کے شعری سرمائے میں سے میں ابھی ندیم زندہ تھے تو تواتر سےلکھنا شروع کر دیاس تھا کہ ہم لوگوں کا ذہنی معیار ابھی اس نتہا تک نہیں پہنچا ککہ ندیم شناسی کے قابل ہو سکے لیکن آئیندہ آنے والی نسلوں میں ندیم کی غزلوں، نظموں افسانوں کو وہ مقام دے سکیں جسکے وہ اہل ہیں


    شاید مستقبل کا مورخ ہی سن لے
    پتھر کی دیوار پہ دستک دیتا ہوں

    شعر کہے تو کبھی کبھی محسوس ہوا
    جیسے ابر ہوں اور خلا میں برسا ہوں



    Click image for larger version

Name:	nadeem1.gif
Views:	1
Size:	30.5 KB
ID:	2486351




    جاری ہے
    Last edited by Dr Fausts; 17 September 2011, 09:15.
    :(

  • #2
    Re: Ahmed Nadeem Qasmi

    ندیم کے پورے شعری سرمائے میں یہ نظم ایک عجیب انوکھا پن رکھتی ہے
    یہاں ندیم نشاط و الم اور لذت و مرگ کے ناگزیر مگر پراسرار تعلق کو موج
    غم پر رقص کرتا ہے حباب زندگی کی روشنی میں سمجھنے میں کوشاں
    ہیں۔۔یہ تصور کہ انسان پہلے سے طے شدہ مقدر میں دائرے میں گردش
    کا پابند ہے رفتہ رفتہ باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور ندیم بہت جلد فکری ارتقا
    کے اس مرحلے پر پہنچ جاتے ہیں جہاں انسان کے مجبور محض ہونے
    کا افسانہ ختم ہو جاتا ہے اور ارداہ و اختیار میں انسان کی خود مختاری
    کی قلمرو شروع ہو جاتی ہے۔اب ندیم کے فکر و فن پر امید اور روشنی
    کی وہ چھوٹ پڑنے لگتی ہے کہ موت کا تصور بھی فنا کے اندیشوں
    سے نا اشنا ہو جاتا ہے۔۔اب موت اُن کے لیے جلوہ گہ حسن سے ایک
    نیئ افق حسن کی جانب پرواز کا اسم بن جاتی ہے





    Click image for larger version

Name:	rooh.gif
Views:	2
Size:	25.7 KB
ID:	2419082





    Jari hai.........
    :(

    Comment


    • #3
      Re: Ahmed Nadeem Qasmi




      بہشت کی رفعتیں ابھی تک ندیم کے انتظار میں ہیں
      کہ اب بھی ذرے چمک رہے ہیں فلک پہ آدم کی راہگزر کے
      Jari hai


      کاش کوئی ایسی صورت ہوتی کے دنیا سے جانے والے کا رابطہ دنیا والوں سے ہوتا اور وہ اپنی صورتِ حال سے آگاہ کرتا ،اور رہ جانے والوں کو اپنی کامیابی یا ناکامی کی یقین دھیانی کراتا اور سختی سے نصیحت کرتا کے میں نے تو وقت اور زندگی کا استعمال صحیح نہ کر کے یا کر کے کھو دیا یا پا لیا مگر تم اپنے آپ پر ظلم نہ کرو اور اپنے وقت اور مہلت سعے فائدہ حاسل کرتے ہوئے صحیح زندگی اور اعمال کواختیار کرو

      بہرحال جناب احمد ندیم قاسمی دنیا سے رخصت ہو گئے جو وقت ملا تھا وہ ختم ہو گیا نجانے کس حل میں ہیں امید اچھے کی کرتے ہوئے اللہ سے انکی مغفرت کی دعا کرتے ہیں
      واسلام

      آسماعیل اعجاز خیال
      Last edited by Ismail Ajaz; 18 September 2011, 09:58.
      Ismail Ajaz (Khayaal)

      muHabbatoN se muHabbat sameTne waalaa
      Khayaal aap kee maiHfil meN aaj phir aayaa

      Comment


      • #4
        Re: Ahmed Nadeem Qasmi

        بہت اچھا لکھا ہے ڈاکٹر صاحب آپ نے، جہاں تک قاسمی صاحب کے ان اشعار کا تعلق ہے تو انکی جو تشریح آپ نے بیان کی ہے اس سے بھی مجھے کوئی اختلاف نہیں
        صرف اتنا کہوں گا کہ شاید یہی وہ مقام ہے جہاں انسان وحی الہٰی کا محتاج ہوتا ہے تاکہ زندگی اور بعد زندگی کی حقیقت سے روشناس ہوسکے.

        اچھی اور خوبصورت تحریر کے لیے بہت بہت شکریہ





        Comment

        Working...
        X