مقدمہ شاعری
لکیر الدین فقیر
لکیر الدین فقیر
اپنی فنا سے مجھے بلا کی ضد ہے ندیم
سبزہ بن کر اپنی ںکلا ہوں
سبزہ بن کر اپنی ںکلا ہوں
فنا اور بقا کا ربط باہم صدیوں سے ہمارے فکری اور شعری روایت کا ایک زرخیز
موضوع چلا آرہا ہے۔۔میر کے نزدیک موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے اور اس پڑاو
پر ذرا سا دم لے کر آگے چلنا لازم ہے تو اقبال کے ہاں موت تجدید مذاق ِ زندگی کا دوسرا نام ہے اور ندیم مرنے کو مٹنے کے مصداق نہیں مانتے اوربڑے تیقین کے ساتھ اعلان کرتے ہیں
موضوع چلا آرہا ہے۔۔میر کے نزدیک موت ایک ماندگی کا وقفہ ہے اور اس پڑاو
پر ذرا سا دم لے کر آگے چلنا لازم ہے تو اقبال کے ہاں موت تجدید مذاق ِ زندگی کا دوسرا نام ہے اور ندیم مرنے کو مٹنے کے مصداق نہیں مانتے اوربڑے تیقین کے ساتھ اعلان کرتے ہیں
کون کہتا ہے کہ موت اآئی تو مر جاوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
نظام فطرت میں کار فرما تخلیقی ارتقا کے اصولوں سے آگہی اور اسلام کے تصور کائنات کی معنونیت سے گہری شناسائی کی منزل تک رسائی سے پہلے ندیم اپنی اس منفرد غزل میں زندگی اور موت کو مفہوم کی کھوج میں سرگرداں نظر اآتے ہیں،،اس غزل کی پوری فضا تاریک اندیشی اور مقدر پرستی کی گرفت میں سانس لے رہی ہے
طناب خیمہ گردوں ہوں اے فرشتہ موت
میں آسمان کی خاطر زمین میں اتروں
میں آسمان کی خاطر زمین میں اتروں
سیدھے راستوں کو چھوڑ کر بھٹکی ہوئی نیکیاں کمانے کے خوگر اور ساری دنیا میرا کعبہ سب انسان میرے محبوب کے مسلک پر کاربند ندیم کو اس بات کا پورا یقین ہے کہ موت سے شروع ہپوانے والے مرحلہ حیات میں ان کی راہ میں کسی جہنم کا کوئی گزر نہیں بلکہ
بہشت کی رفعتیں ابھی تک ندیم کے انتظار میں ہیں
کہ اب بھی ذرے چمک رہے ہیں فلک پہ آدم کی راہگزر کے
کہ اب بھی ذرے چمک رہے ہیں فلک پہ آدم کی راہگزر کے
زندگی کے دائمی تسلسل کا راز ندیم پر مشاہدہ میں انہماک سے کھلا، لوح خاک سے سر پردہ افلاک تک پھیلے ہوئے طلسم زندگی کے اسرار پر انہوں نے جس زکاوت احساس اور بصیرت قلب سےغور کیا وہ ان کے معاصرین میں ناپید ہے۔۔گہرے باطنی احساس کے ساتھ فطرت کے خارجہ مشاہدات
نے انہیں اندگی کی ابدیت کا عرفان بخشا ہے وہ مختلف اور متنوع پیرایوں میں ہمیں بتاتے ہیں کہ جہاں سے شاخ ٹوٹتتی ہے وہیں سے ایک نئی شاخ پھوٹتی ہے۔۔پھول ابھی پوری طرح جھڑنے بھی نہیں پاتے کہ خشک شاخوں پر آئندہ کے پھولوں کے نگینے سے نمودار ہونے لگتے ہیں اور یوں رفتہ رفتہ پت جھڑ کا طلسم توٹنے لگتا ہے۔۔
نے انہیں اندگی کی ابدیت کا عرفان بخشا ہے وہ مختلف اور متنوع پیرایوں میں ہمیں بتاتے ہیں کہ جہاں سے شاخ ٹوٹتتی ہے وہیں سے ایک نئی شاخ پھوٹتی ہے۔۔پھول ابھی پوری طرح جھڑنے بھی نہیں پاتے کہ خشک شاخوں پر آئندہ کے پھولوں کے نگینے سے نمودار ہونے لگتے ہیں اور یوں رفتہ رفتہ پت جھڑ کا طلسم توٹنے لگتا ہے۔۔
ایک غزل دیکھیں ندیم کے شعری سرمائے میں سے میں ابھی ندیم زندہ تھے تو تواتر سےلکھنا شروع کر دیاس تھا کہ ہم لوگوں کا ذہنی معیار ابھی اس نتہا تک نہیں پہنچا ککہ ندیم شناسی کے قابل ہو سکے لیکن آئیندہ آنے والی نسلوں میں ندیم کی غزلوں، نظموں افسانوں کو وہ مقام دے سکیں جسکے وہ اہل ہیں
شاید مستقبل کا مورخ ہی سن لے
پتھر کی دیوار پہ دستک دیتا ہوں
پتھر کی دیوار پہ دستک دیتا ہوں
شعر کہے تو کبھی کبھی محسوس ہوا
جیسے ابر ہوں اور خلا میں برسا ہوں
جیسے ابر ہوں اور خلا میں برسا ہوں
جاری ہے
Comment