یہ فسانہء عشق نہیں فسانہ ہائے عشق ہے ۔
پہلا حیرت فزا عشق فن سے! جس نے میرے جنم کے ساتھ جنم لیا ۔ جو میرے جذبات و احساسات کا مرکز و محور ہے ۔ میری روح کی سرّیت کا عکس ہے ۔ میرے باطن کے نظاروں کا جمیل ترین اور مکمل ترین نقش ہے ۔ میرے دل کی اولین تمنا اور تمنا کی اولین کشش انگیز صدا ہے ۔
دوسرا عشق، گونا گوں تحیرات سے بھری ہوئی اس دنیا سے! جو ایک معین عرصے کے لیے اس جسم کی قیام گاہ ہے ۔ رہگزر دوراں پر ایک مہمان سرائے ۔ اشیا سے اٹا ہوا بازار ۔ خواہشات سے سجا ہوا ایک صنم خانہ ۔ دھوکے اور فریب سے گونجتا ایک خالی مکان ۔ خاموشیوں سے سنسناتا ہوا ایک تاریک جنگل ۔
تیسرا عشق، اسرار سے پر اپنی ذات سے! جو اس کائنات کا سب سے اہم مظہر ہے ۔ ہر چیز سے عزیز ۔ ہر شے سے اتم ۔ ہر پیارے سے پیاری! میں ہوں تو یہ عالم آب و گل ہے ۔ میں ہوں تو ہر شے، ہر خیال، ہر آواز، ہر وجود با معنی ہے ۔ میں ہوں تو، تو ہے!
مگر میں کیا ہوں؟ مجھے تو آج تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ میں کون ہوں ۔ میں وہ نہیں ہوں جو دنیا مجھے سمجھتی ہے ۔ میں وہ نہیں ہوں جو اپنے ظاہری وجود اور ارد گرد پھیلی ہوئی اشیا سے ثابت ہوں ۔ میں وہ نہیں ہوں جو تو مجھے جانتا ہے ۔
میں اپنے باطن میں تحیرات سے بھری ایک دنیا ہوں ۔ زندگی کے لیے ایک مہمان سرائے ۔ ہنگاموں سے پر ایک بازار ۔ خواہشات کا ایک صنم خانہ ۔ فریب سے گونجتا خالی مکان ۔ سنسناتا ہوا تاریک جنگل ۔ میں اپنی ذات میں ایک معمہ ہوں ۔ ایک چیستاں ۔ میں سر تا سر حیرانی ہوں ۔ میں ایک لا مختتم خلا ہوں ۔ بے معنویت کا ایک شعبدہ ۔ اپنے آپ سے نالاں و بیزار ۔ رنجور اور بے قرار!
رنجور اور بے قرار ہوں مگر جانتی ہوں کہ میری ذات ہی میں میرا قرار دل و جاں موجود ہے ۔ جو اس معمے کو حل کرتا ہے ۔ اس چیستاں میں راستہ بناتا ہے ۔ اس خلا میں زمان و مکاں ہویدا کرتا ہے ۔ اس بے معنویت کو کسی معجزے سے معانی عطا کرتا ہے ۔ میری نگاہوں پر زندگی، روشنی، حرارت اور رنگ ورامش کے جہانوں کے در وا کرتا ہے ۔ میرے دل کو میرے ہونے کا یقین عطا کرتا ہے اور میں جی اٹھتی ہوں ۔
اور تو بھی جی اٹھتا ہے ۔ اگر تو بھی ایک فن کار ہے ۔ پھر ہم اپنے آپ سے کہتے (ہیں ''ہاں یہ فن ہے، جس نے ہمیں زندگی، روشنی، اور معانی عطا کیے''۔
تو پھر اہم کون ہوا ،ذات، دنیا یا فن؟
عشق کی ہر کہانی میں سارے سوال ایسی ہی مثلث سے جنم لیتے ہیں ۔ لیکن میری مثلث ازلی و ابدی ہونے کے باوجود، روایتی نہیں ۔ کیونکہ میوز، سامر، میں، ایک ہی وجود میں محو عشق اور معرکہ آرا ہیں ۔ بس یہی فسانہ ہے عشق آباد کا
ثمینہ راجہ
Comment