Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ


    یہ فسانہء عشق نہیں فسانہ ہائے عشق ہے ۔
    پہلا حیرت فزا عشق فن سے! جس نے میرے جنم کے ساتھ جنم لیا ۔ جو میرے جذبات و احساسات کا مرکز و محور ہے ۔ میری روح کی سرّیت کا عکس ہے ۔ میرے باطن کے نظاروں کا جمیل ترین اور مکمل ترین نقش ہے ۔ میرے دل کی اولین تمنا اور تمنا کی اولین کشش انگیز صدا ہے ۔
    دوسرا عشق، گونا گوں تحیرات سے بھری ہوئی اس دنیا سے! جو ایک معین عرصے کے لیے اس جسم کی قیام گاہ ہے ۔ رہگزر دوراں پر ایک مہمان سرائے ۔ اشیا سے اٹا ہوا بازار ۔ خواہشات سے سجا ہوا ایک صنم خانہ ۔ دھوکے اور فریب سے گونجتا ایک خالی مکان ۔ خاموشیوں سے سنسناتا ہوا ایک تاریک جنگل ۔
    تیسرا عشق، اسرار سے پر اپنی ذات سے! جو اس کائنات کا سب سے اہم مظہر ہے ۔ ہر چیز سے عزیز ۔ ہر شے سے اتم ۔ ہر پیارے سے پیاری! میں ہوں تو یہ عالم آب و گل ہے ۔ میں ہوں تو ہر شے، ہر خیال، ہر آواز، ہر وجود با معنی ہے ۔ میں ہوں تو، تو ہے!
    مگر میں کیا ہوں؟ مجھے تو آج تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ میں کون ہوں ۔ میں وہ نہیں ہوں جو دنیا مجھے سمجھتی ہے ۔ میں وہ نہیں ہوں جو اپنے ظاہری وجود اور ارد گرد پھیلی ہوئی اشیا سے ثابت ہوں ۔ میں وہ نہیں ہوں جو تو مجھے جانتا ہے ۔
    میں اپنے باطن میں تحیرات سے بھری ایک دنیا ہوں ۔ زندگی کے لیے ایک مہمان سرائے ۔ ہنگاموں سے پر ایک بازار ۔ خواہشات کا ایک صنم خانہ ۔ فریب سے گونجتا خالی مکان ۔ سنسناتا ہوا تاریک جنگل ۔ میں اپنی ذات میں ایک معمہ ہوں ۔ ایک چیستاں ۔ میں سر تا سر حیرانی ہوں ۔ میں ایک لا مختتم خلا ہوں ۔ بے معنویت کا ایک شعبدہ ۔ اپنے آپ سے نالاں و بیزار ۔ رنجور اور بے قرار!
    رنجور اور بے قرار ہوں مگر جانتی ہوں کہ میری ذات ہی میں میرا قرار دل و جاں موجود ہے ۔ جو اس معمے کو حل کرتا ہے ۔ اس چیستاں میں راستہ بناتا ہے ۔ اس خلا میں زمان و مکاں ہویدا کرتا ہے ۔ اس بے معنویت کو کسی معجزے سے معانی عطا کرتا ہے ۔ میری نگاہوں پر زندگی، روشنی، حرارت اور رنگ ورامش کے جہانوں کے در وا کرتا ہے ۔ میرے دل کو میرے ہونے کا یقین عطا کرتا ہے اور میں جی اٹھتی ہوں ۔
    اور تو بھی جی اٹھتا ہے ۔ اگر تو بھی ایک فن کار ہے ۔ پھر ہم اپنے آپ سے کہتے (ہیں ''ہاں یہ فن ہے، جس نے ہمیں زندگی، روشنی، اور معانی عطا کیے''۔
    تو پھر اہم کون ہوا ،ذات، دنیا یا فن؟
    عشق کی ہر کہانی میں سارے سوال ایسی ہی مثلث سے جنم لیتے ہیں ۔ لیکن میری مثلث ازلی و ابدی ہونے کے باوجود، روایتی نہیں ۔ کیونکہ میوز، سامر، میں، ایک ہی وجود میں محو عشق اور معرکہ آرا ہیں ۔ بس یہی فسانہ ہے عشق آباد کا



    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ

    میوز


    بہت سرمئی دھند تھی ۔۔۔ آسماں سے زمیں تک
    مرا نرم دل نو دمیدہ تھا
    نوزائیدہ تن تھا ۔۔ شیشے کے مانند نازک
    ابھی تک بہت خواب دیدہ تھا
    اور چشم حیراں ذرا نیم وا تھی
    مری نیم وا چشم حیراں نے ۔۔۔ مشرق کی جانب
    افق میں سیہ اور شفاف آئینے پر
    اپنے طالع کو بیدار ہوتے ہوئے
    پہلی ساعت میں دیکھا
    وہ ساعت کہ جس کے اجالے کے نیچے
    مری زندگی نے، کنار عدم سے ادھر پاؤں رکھا
    مرے جسم نے باغ دنیا میں بہتی ملائم ہوا کا
    ذرا نیم شیریں
    ذرا نیم سرداب چکھا
    مرا نرم دل جو ابھی نو دمیدہ تھا
    اس آئنے میں خود اپنا وجود خفی دیکھتا تھا
    تو اس ائنے میں جھلکتے ہوئے اس نے دیکھا
    مرے ساتھ ۔۔۔۔ اک اور چہرہ

    ازل سے ابد کی طرف جاتے حیران رستوں پہ
    قرنوں تلک نور ہی نور تھا
    رستہء سیم تن کے کناروں پہ رنگیں گلابوں کے تختے مہکتے تھے
    خوشبو کی بارش فضائے جہاں پر اترتی تھی
    حد سماعت سے آگے تلک نقرئی گھنٹیوں کی صدا تھی
    مری جاں، شب و روز کے فہم سے ماورا تھی




    کوئی چاندنی سا لبادہ پہن کر
    میں اپنے بدن کی لطافت میں
    جب آسماں سے زمیں کی طرف اٹھ رہی تھی
    مرا ہاتھ تھامے ۔۔۔ مرے ساتھ تھے تم


    سنہری بدن پر ۔۔۔ مرا تن سنبھالے
    گلابی لبوں پر ۔۔۔ مرا لمس اٹھائے
    ملائم نظر میں محبت کی رنگین دنیا سجائے

    تمہاری چمک دار زلفوں سے
    کتنے زمانوں کی تازہ ہوائیں گزرتی تھیں
    آنکھوں کی اس نیلمیں تاب میں
    سینکڑوں شنگرفی سر زمینیں ۔۔۔ کئی نیلگوں آسماں تھے
    زمیں سے فلک تک ۔۔۔ ہزاروں نظارے نمایاں تھے
    لیکن مری چشم حیراں میں ۔۔۔ یہ سب تماشا نہیں تھا
    فقط تم عیاں تھے
    رگ جاں میں بہتے ہوئے سرخ خوں میں رواں تھے

    مری روح کے سبز شعلے میں
    اونچی ۔۔۔ بہت اونچی اٹھتی ہوئی ایک لو تھی تمہاری
    مرے سر کے اطراف میں جس سے نورانی ہالہ بنا تھا
    کہ تم اولیں خواب ہستی کی صورت
    خدائے محبت کے مانند
    دل میں نہاں تھے


    ***

    Comment


    • #3
      Re: عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ


      سامر


      جادو اثر ہے
      جو بھی تُو تسبیح پر
      پڑھتا ہے
      صبح و شام
      میرے سامنے
      آنکھوں میں تیری سِحر ہے
      آواز میں ہے ساحری
      تیرے بدن کے آبنوسی رنگ میں ہے وہ کشش
      جو مجھ کو
      پاگل کر گئی

      چہرہ ترا ۔۔۔ بچپن سے میرے خواب میں آتا رہا
      ماتھے پہ کالی زلف کی یہ اُلجھی لٹ
      میرے پریشاں دل سے الجھی ہی رہی
      نظروں میں منڈلاتی رہیں
      چوڑی بھنویں اور گہری آنکھیں
      میرا رستہ روکتی آنکھیں،
      تری جادو بھری یک ساں نظر سے
      خوں کی اک اک بوند ۔۔۔ اک اک سانپ بن کر
      اس بدن میں
      سرسراتی ۔۔۔ رینگتی ۔۔۔ چلتی رہی
      اُن سانولے ہونٹوں پہ گہری پیاس کا اَن مِٹ نشاں
      میرے لبوں پر ۔۔۔ پیاس کا صحرا جگاتا
      ریت پر کوئی بگولہ بن کے لہراتا رہا

      جادو اثر ہے وِرد تیرا
      ایسا لگتا ہے کہ ان ہونٹوں کی ہر جنبش
      مرے دل میں تمنّا کا الاؤ سا جلاتی ہے
      مرے تن پر اشارے سے ۔۔۔ کوئی لیلٰی بناتی ہے
      مجھے اپنی طرف ہر پَل بلاتا ہے
      تری آواز کا افسوں
      مرا مجنوں

      ہمیشہ ، رستہ ء دوراں کے کالے موڑ پر بیٹھا ہے
      ممنوعہ شجر کے سائے میں
      ہر دم ۔۔۔ سُلگتی خواہشوں کی
      کوئی دُھونی سی رمائے
      اپنی پیشانی پہ ۔۔۔ دنیا رنگ کا
      قشقہ لگائے

      سِحر ہے اواز میں
      تسبیح تیرے ہاتھ میں
      اک جان لیوا وِرد ہے تیرے لبوں پر
      ہجر کا اک دشت ہے میرے بدن میں
      سنسناتی پیاس ہے میرے لبوں پر


      ***

      Comment


      • #4
        Re: عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ

        ماؤں کا المیہ



        جواں ہوتے مغرور بچوں کی ماؤں کا
        ۔۔۔۔۔۔۔ کیسا عجب مسئلہ ہے
        انہیں زندگی میں، نئی زندگی کی تمنا ہے

        آئنہ دیکھیں تو اس میں کسی اور کا
        خوب صورت نویلا بدن
        آنکھ میں جاگتی اک کرن
        شوق کا اجنبی بانکپن ۔۔۔ دیکھ سکتی ہیں

        آنکھوں میں خوابوںکا کاجل لگاتی ہیں
        ہونٹوں کی معصوم سرخی چھپاتی ہیں
        اور مسکراتی ہیں
        اور مسکراتی ہیں ۔۔۔ اپنے بدن میں
        دھڑکتے ہوئے دل کی موجودگی پر

        بدن ۔۔۔ جس پہ دیوار و در کا
        سلیقے سے بستے ہوئے پورے گھر کا
        اور ایک ایک لخت ِ جگر کا
        بہت رنگ گہرا ہے
        عزت، تقدس کا ہر سانس پر سخت پہرا ہے

        دل ۔۔ جس کو گھر اور گرہستی کے نیچے دبے
        بے بدن جیسے، ٹھنڈے بدن سے نکل کر
        کسی دھوپ کے سرخ میں ۔۔۔
        خوں نہانے کی خواہش ہے
        خوابوں کی اک رنگنائے میں
        ۔۔۔ غوطہ لگانے کی خواہش ہے
        نیلی فضا میں، بہت دور جانے کی خواہش ہے
        اک دودھیا پر ۔۔۔ پرندے کو بانہوں میں لینے کی
        افلاک میں اک گلابی ستارے کو چھونے کی
        ماہِ منور کو پانے کی خواہش ہے

        دل ۔۔۔ جس کو عزت کی چادر میں لپٹے ہوئے
        سرد پڑتے ہوئے اور ڈھلکتے ہوئے ۔۔۔ ماس کو
        پھر دہکتا ہوا، تن بنانے کی خواہش ہے
        گلزار ِ ہستی میں
        موجودگی کا کوئی گُل کھلانے کی
        شب کے دھڑکتے اندھیرے میں ۔۔ سیجیں سجانے کی
        دنیا کی نظروں سے چھپ کر
        ۔۔۔۔ سراندیپ دنیا، بسانے کی خواہش ہے

        اس دل کے ہونے پہ ۔۔۔ حیران ہوتی ہیں
        اپنے جواں ہوتے مغرور بچوں کی ۔۔۔ معصوم مائیں
        کبھی مسکراتی ہیں
        پھر اپنی اس مسکراہٹ پہ روتی ہیں

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
        ''سراندیپ'' serendipitous


        ***

        Comment


        • #5
          Re: عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ

          مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے



          ساز خاموش کو چھوتی ہے ـــــــ ذرا آہستہ
          ایک امید ـــــ کسی زخمہء جاں کی صورت
          لب پر آتے ہیں دل و ذہن سے الجھے یہ سوال
          کسی اندیشے کے مانند ــــ گماں کی صورت

          ذہن کے گوشہء کم فہم میں سویا ہوا علم
          جاگتی آنکھ کی پتلی پہ ــــــ نہیں اترے گا
          ڈوب جائے گا اندھیرے میں وہ نادیدہ خیال
          جو چمکتاـــــــ تو کسی دل میں اجالا کرتا

          جسم پر نشّے کے مانند ـــــــــ تصوّر کوئی
          دل میں تصویر مجسّم کی طرح کوئی وصال
          دفن ہو جائے گا اک ٹھہرے ہوئے پانی میں
          میری آنکھوں کی طرح عشق کا یہ ماہ جمال

          ایک ہی پل میں بکھر جائے گا شیرازہء جاں
          ایک ھی آن میں کھو جائے گی لے ہستی کی
          عمر پر پھیلی ــــــ بھلے وقت کی امید جو ہے
          ایک جھٹکے سے یہ دھاگے کی طرح ٹوٹے گی

          کیا بکھر جائیں گے ـــــ نظمائے ہوئے یہ کاغذ
          یا کسی دست ملائم سے ـــــــ سنور جائیں گے
          کیا ٹھہر جائیں گے اس لوح پہ سب حرف مرے
          یا مرے ساتھ ــــــــ زمانے سے گزر جائیں گے

          میری آواز کی لہروں سے، یہ بنتے ہوئے نقش
          کیا ہوا کی کسی جنبش سے، بکھر جائیں گے
          زندہ رہ جائیں گے ـــــــــ تعبیر محبت بن کر
          یا مرے خواب، مرے ساتھ ہی مر جائیں گے؟


          ***

          Comment


          • #6
            Re: عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ


            یہ دستیاب عورتیں



            یہ بے حجاب عورتیں
            جنہوں نے سارے شہر کو
            کمالِ عشوہ و ادا سے
            شیوہء جفا نما سے
            بے قرار اور نڈھال کر رکھا تھا
            جانے کون چور راستوں سے
            کوچہء سخن میں آ کے بس گئیں

            کسی سے سُن رکھا تھا ۔۔۔ '' یاں فضائے دل پذیر ہے
            ہر ایک شخص اس گلی کا، عاشق ِ نگاہِ دلبری
            معاملاتِ شوق و حسن و عشق کا اسیر ہے
            کہ سینکڑوں برس میں پہلی بار ہے
            زنانِ کوچہء سخن کو اِذن ِ شعر و شاعری
            بس ایک دعویء سخں وری کی دیر ہے کہ پھر
            تمام عیش ِ زندگی
            قبول ِ عام ۔۔ شہرت ِ دوام کی اضافی خوبیوں کے ساتھ
            پیش ہوں گے طشتِ خاص و عام میں سجے ہوئے
            مگر یہ ہے کہ دعویء سخن وری کے واسطے
            کہیں کوئی کمال ہونا چاہیئے
            خریدنے کو مصرعہ ہائے تر بتر
            گِرہ میں کچھ تو مال ہونا چاہیئے''

            یہ پُر شباب عورتیں
            چھلک رہی تھیں جو وفورِ شوق سے
            تمام نقدِ جسم ۔۔۔۔۔
            زلف و عارض و لب و نظر لیے ہوئے
            مچل گئیں ۔۔۔ متاع ِ شعر کے حصول کے لیے
            سخن کے تاجروں کو اس طلب کی جب خبر ہوئی
            تو اپنے اپنے نرخ نامے جیب میں چھپائے ۔۔۔ پیش ہو گئے
            '' نگاہِ ناز کے لیے یہ سطر ہے
            یہ نظم، مسکراہٹوں کی نذر ہے
            یہ ایک شعر، ایک بات کے عوض
            غزل ملے گی ۔۔۔ پوری رات کے عوض''

            نہ پاسبانِ کوچہء سخن کو کچھ خبر ہوئی
            نجانے کب یہ مول تول ۔۔۔ بھاؤ تاؤ ہو گیا
            نجانے کب مذاق ِ حسن و عشق
            اپنا منہ چھپا کے سو گیا
            کمال ِ فن ۔۔۔ لہو کے اشک رو گیا
            یہ کیا ہوا کہ پوری طرح روشنی سے قبل ہی
            تمام عہد ۔۔ ایک سرد تیرگی میں کھو گیا

            اور اب جدھر بھی دیکھئے
            ہیں بے حساب عورتیں
            ہر ایک سمت جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی ہیں
            شب کے سارے راستوں پہ
            دستیاب عورتیں

            ***

            Comment


            • #7
              Re: عشق آباد ۔ ثمینہ راجہ

              Zabardast...

              Comment

              Working...
              X