Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ


    محبت کرنے والے، بہت خوش بخت لوگ ہوتے ہیں ۔ تمام سفر نصیب لوگوں میں
    سب سے خوش بخت ۔ وابستگی کی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہونے کے سبب
    ممکن ہے یہ عام لوگوں سے زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔
    لیکن یہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ اعلٰی درجے کے کیف سے بھی نوازے جاتے ہیں ۔
    کیونکہ انہیں اپنی پرانی وابستگیوں پر پڑے ہوئے، وقت کے دبیز پردوں کو
    ہٹانے کے لیے، تمنا کی شدت اور وارفتگی عطا کی جاتی ہے ۔ وہ وابستگیاں جو کہیں
    پچھلے جنموں میں قائم ہوئیں ۔
    فراق و وصال سے بے نیاز، یہ اپنی ہی ذات کے ترفع میں مصروف لوگ ہوتے ہیں ۔
    محبت اور اذیت کی مشترکہ یادوں کے طلسمی تاروں سے جڑے ہوئے ۔
    ان کی روحیں، کسی الوہی ساز کی وجد آفریں لے پر رقصاں ہوتی ہیں اور ان کے دل
    سرشاری کی انتہا پر پہنچ کر کائنات کی طرح بے کنار ہو جاتے ہیں ۔

    اپنے فن میں ڈوبے ہوئے شاعر، ادیب اور فنکار
    ان عشاق سے کہیں زیادہ خوش بخت ہوتے ہیں ۔
    اپنی مخصوص نظریاتی وابستگیوں کے سبب، ممکن ہے، یہ بھی عام لوگوں سے
    زیادہ اذیت میں بسر کرتے ہوں ۔ لیکن انہیں بھی عام لوگوں کی نسبت، زیادہ اعلٰی درجے کے
    کیف سے نوازا جاتا ہے ۔ وقت بڑی سہولت سے، ان کی آنکھوں سے اپنے پردے
    ہٹا دیتا ہے ۔ اور زمانے ان کےقدموں میں راستوں کی طرح بچھ جاتے ہیں ۔
    ستائش اور صلے سے بے نیاز، یہ اپنی ہی ذات کے ترفع میں محو لوگ ہوتے ہیں ۔
    ان کے دلوں میں پوری کائنات کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی وسعت ہوتی ہے ۔
    اور ان کی روحیں جو الوہی نغمے الاپتے ہیں، ابدیت ان پر رشک کرتی ہے




    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ


    ایک نگاہ اس طرف


    آئنہ رکھ دیا گیا عکس جمال کے لیے
    پورا جہاں بنا دیا، ایک مثال کے لیے
    خاک کی نیند توڑ کر آب کہیں بنا دیا
    ارض و سما کے درمیاں خواب کہیں بنا دیا
    خواب نمود میں کبھی آتش و باد مل گئے
    شاخ پر آگ جل اٹھی، آگ میں پھول کھل گئے
    ساز حیات تھا خموش، سوز و سرود تھا نہیں
    اس کا ظہور ہو گیا جس کا وجود تھا نہیں

    خاک میں جتنا نور ہے ایک نگاہ سے ملا
    سنگ بدن کو ارتعاش دل کی کراہ سے ملا
    دشت وجود میں بہار اس دل لالہ رنگ سے
    رنگ حیات و کائنات اس کی بس اک امنگ سے
    قرنوں کے فاصلوں میں یہ دل ہی مرے قریب تھا
    قصہء ہست و بود میں کوئی مرا حبیب تھا
    تیرہ و تار راہ میں ایک چراغ تھا مرا
    کوچہ ء بے تپاک میں کوئی سراغ تھا مرا

    ہو کے دیار خواب سے کیسی عجب ہوا گئی
    شیشہء تابدار پر گرد ہی گرد جم گئی
    بھول چکا ہے اپنی ذات بھول گیا ہے اس کا نام
    سوز و گداز کے بغیر، لب پہ درود اور سلام
    مدت عمر ہو گئی اس کو عجیب حال میں
    فرق ہی کچھ رہا نہیں شوق میں اور ملال میں
    دل کی جگہ رکھا ہے اب، سنگ سیاہ اس طرف
    ہجر و وصال کے خدا! ایک نگاہ اس طرف

    ***

    Comment


    • #3
      Re: دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ


      خوش ہوں کہ تیرے غم کا سہارا مجھے ملا
      ٹوٹا جو آسمان، ستارہ مجھے ملا

      کچھ لوگ ساری عمر ہی محروم ِ غم رہے
      اک خواب ِ عشق تھا جو دوبارہ مجھے ملا

      پھر شام ِ زندگی کے اُسی موڑ پر ہوں میں
      جس شام، التفات تمہارا مجھے ملا

      گردش میں لا کے پاؤں کے نیچے زمین کو
      اک دور کے سفر کا اشارہ مجھے ملا

      اِس ہجرمیں شریک تھا تُو بھی مرا تو پھر
      کیسے ہوا کہ سارے کا سارا مجھے ملا

      شایاں نہیں ہیں دل کے یہ غم ہائے روزگار
      کیوں جو نہیں ہے مجھ کو گوارا، مجھے ملا

      ہر اٹھتی موج کرنے لگی تھی زمیں سے دور
      یوں، آسماں کا ایک کنارہ مجھے ملا

      ترجیح تیری اور سہی اب مگر وہ خواب
      سرمایہء حیات ہمارا، مجھے ملا

      جلنے لگی تھیں مشعلیں خیموں کے آس پاس
      پھر کیسے کوچ کا وہ اشارہ مجھے ملا

      پھر رات کے دیار تلک ساتھ ہم چلے
      رستے میں جب وہ شام کا تارا مجھے ملا

      ***

      Comment


      • #4
        Re: دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ


        شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں


        صدائے زندگی نہیں ۔۔۔۔ کسی اداس ساز کی صدا ہے یہ
        نشیب سے بلند ہو رہی ہے
        یا بلندیوں سے اِن سماعتوں تلک اُتر رہی ہے
        اُٹھ رہی ہے اِس زمیں کی سانولی حدوں کے آس پاس سے
        کہ نیلگوں فلک کی سُرمگیں لکیر کے اُدھر سے
        کس طرف سے گنگنا رہی ہے یہ
        شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں
        ہَوائے بے نیاز کو خبر نہیں

        یہ دشتِ ہَول ہے کہ دل کی بے بسی کا سلسلہ
        یہ کہکشاں کی دھند ہے کہ زندگی کا راستہ
        یہ خواب ہے کہ اک جہانِ خاک و آب و باد ہے
        نئی زمیں کا آسرا ہے
        یا ستارہء کہن کی کوئی یاد ہے
        کوئی پہن کر آ رہا ہے چاندنی کا پیرہن
        کہ ہے یہ صرف خاکِ مضطرب کا ریشمیں بدن

        فصیل ِ شہر ِ جاں پہ کس کا عکس ہے
        یہ آسماں کے بے نشان راستوں پہ کون محو ِ رقص ہے
        یہ کوئی اجنبی ہے ۔۔۔ راہ رَو ہے
        کوئی رند ہے ۔۔۔۔ نشے میں چُور
        آشیاں سے دور ۔۔۔ کوئی بے نوا پرند ہے
        کسی نگاہِ خوش میں تیرتا ہوا کوئی خیال
        یا کسی شکستہ دل میں ۔۔۔ لمحہ لمحہ ڈوبتا ملال ہے

        سیاہ رات کی جواں اداسیاں ۔۔۔ بکھر رہی ہیں ہر طرف
        کہ گیت گا رہی ھیں وصل و ہجر کے
        اداس دیو داسیاں
        ستارے اک دبیز خواب میں چُھپے ہوئے ہیں
        سو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
        ۔۔۔۔۔۔ جاگتے ہیں
        آسمانِ شب کو کچھ خبر نہیں

        کوئی وجود کی اتھاہ آرزو مین گُم ہوا
        کوئی خلا کے بحر میں
        کسی نئے خیال کی ۔۔۔ کسی نئے کنار کی
        نئی زمیں ۔۔۔ نئی فضا کی ۔۔۔ خوابنا
        کی آرزو میں گم ہوا
        کوئی وفا شناس، بزم ِ بے تپاک سے اُٹھا
        قدم اُٹھے کہ جسم خاک سے اٹھا
        کہاں سے آ رہی ہے یہ عجب صدا

        صدائے زندگی ہے یہ
        کہ ساز ِ سرمدی کی اک صدائے خوابناک ہے
        صدائے نور ۔۔۔۔ یا صدائے خاک ہے
        ہوائے بے نیاز کو خبر نہیں
        شبِ ستارہ ساز کو خبر نہیں

        ***

        Comment


        • #5
          Re: دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ


          میری بھی اک زندگی ہے



          مری اک زندگی ہے ۔۔۔ جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے
          کوئی انہونی تمنا ۔۔۔ جو تمہاری آرزو سے مختلف ہے
          ایک ویرانی کی خوشبو
          جو تمہارے شہر کے ہر رنگ و بو سے مختلف ہے

          زندگی میری وہ قریہ
          سائے کے مانند جس میں دھوپ آتی ہے
          خموشی کی طرخ آواز
          پرچھائیں کی صورت لوگ
          دھوکے کی طرح دنیا
          کوئی گھر ۔۔۔ جس کی اک دہلیز ہے
          دہلیز سے آگے ہے در
          در میں ہے اک دیوار
          دیواروں سے آگے اور دیواریں

          کوئی کمرہ ۔۔۔ اندھیرے سے چمکتا ۔۔۔ خامشی سے گونجتا
          گہرے اندھیرے کے نہاں خانے مین جیسے
          خواب کے روزن سے آتی روشنی میں، دور تک پھیلا ہوا رنگیز
          جس میں خاک کا ہر ایک ذرہ جگمگاتا ہے
          مری نظروں کی زد میں ۔۔۔ دسترس سے دور
          راتوں کے سرہانے جاگتے دن میں
          یہ دردائی ہوئی آنکھیں ۔۔ گزرتے وقت کو
          اک بے توجہ آشنائی سے مسلسل دیکھتی ہیں
          سامنے گھنٹے، منٹ، سیکنڈ ۔ ۔ ۔ ۔
          یکساں دائرے میں چلتے رہتے ہیں

          ازل کی پہلی ساعت میں
          مرے حصے کا سارا وقت ٹھرا ہے
          ابد کی سمت بہتی ۔۔۔ اک کہانی ہے مری
          لیکن تمہاری داستاں سے مختلف ہے

          جو اداسی چھا رہی ہے ایک لمحے کو ۔۔۔ تمہارے نرم دل پر
          میرے دل کی مستقل آزردگی سے مختلف ہے
          میری بھی اک زندگی ہے
          جو تمہاری زندگی سے مختلف ہے
          ______________
          Spectrum - رنگیز

          ***

          Comment


          • #6
            Re: دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ



            خوشبو کے ساتھ اس کی رفاقت عجیب تھی
            لمس ہوائے شام کی راحت عجیب تھی

            چشم شب فراق میں ٹھہری ہے آج تک
            وہ ماہتاب عشق کی ساعت عجیب تھی

            آساں نہیں تھا تجھ سے جدائی کا فیصلہ
            پر مستقل وصال کی وحشت عجیب تھی

            لپٹا ہوا تھا ذہن سے اک کاسنی خیال
            اترا تو جان و جسم کی رنگت عجیب تھی

            اک شہر آرزو سے کسی دشت غم تلک
            دل جا چکا تھا اور یہ ہجرت عجیب تھی

            ملنے کی آرزو، نہ بچھڑنے کا کچھ ملال
            ہم کو اس آدمی سے محبت عجیب تھی

            آنکھیں ستارہ ساز تھیں باتیں کرشمہ ساز
            اس یار سادہ رو کی طبیعت عجیب تھی

            گزرا تھا ایک بار،ہوائے خزاں کے بعد
            اور موجہء وصال کی حدّت عجیب تھی

            ششدر تھیں سب ذہانتیں اور گنگ سب جواب
            اس بے سوال آنکھ کی وحشت عجیب تھی

            اس بار دل کو خوب لگا موت کا خیال
            اس بار درد ہجر کی شدّت عجیب تھی

            ***

            Comment


            • #7
              Re: دل لیلٰی ۔ ثمینہ راجہ

              Zabardast...

              Comment

              Working...
              X