Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ



    یہ دنیا ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے مگر میری روح تنہا ہے ۔ اور اس کی تہہ میں ایک شعلہ ہے ۔
    اس شعلے کی لو جلوت میں دھیمی پڑ جاتی ہے
    اور خلوت میں اونچی ہو جاتی ہے ۔
    بلند تر اور روشن تر۔
    میرے دل میں ایک پھول ہے ۔ یہ پھول، ہجوم کی حدت سے مرجھانے لگتا ہے اور
    تنہائی کی طراوت سے مہک اٹھتا ہے ۔
    اس پھول کی خوشبو مجھے ایک باغ کی یاد دلاتی ہے ۔ اس گمشدہ جنت کی یاد، جس سے مجھے
    میری خواہش کے برعکس، بے دخل کر دیا گیا
    اور جس کی جستجو
    ابدالآباد تک میرا مقدر کر دی گئی ۔
    یاد پڑتا ہے، وہاں دھند کے روپہلے بادلوں میں ، حیرت زدہ زمین پر
    میرے ساتھ کوئی تھا
    کون تھا؟ اور اب کہاں ہے؟ وہ اس دنیا کے زرد راستوں پر ملے گا یا عدن کے سبز راستے پر؟
    اس کی تلاش میں خود فراموشی کی طرف جانا ہو گا یا خود آگہی کی سمت پلٹنا ہو گا؟
    یہ سوالات میرے لہو میں گونجتے ہیں اور ان سے نظمیں تخلیق ہوتی ہیں ۔
    یہ سوالات، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح، ایک دل کے سوالات نہیں ہیں ۔
    یہ تلاش، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح، ایک دل کی تلاش نہیں ہے ۔
    یہ سب کے سوالات ہیں ۔ یہ سب کی تلاش ہے ۔
    کسی اور جگہ پر رہنا، کسی اور مقام کی جستجو کرنا ۔ اسی اور کے پاس ہونا، کسی اور کی آرزو کرنا ۔
    یہی سب کا مقدر ہے
    مقدر، جسے سب میں سے بیشتر، فراموش کر چکے ہیں ۔
    مگر کسی فنکار کو اسے فراموش نہیں کرنا چاہیئے ۔ کسی شاعر کو تو ہرگز نہیں

    ''A poet,s life should be a true poem'' (Milton)

    'شاعر کی زندگی واقعی نظم بن سکتی ہے ۔ لیکن سیرابی سے نہیں
    پیاس سے ۔
    نیند سے نہیں، خواب سے ۔ موجود سے نہیں، ناموجود سے ۔
    حاصل سے نہیں، لاحاصل سے ۔
    وصل سے نہیں، ہجر سے ۔ 'کاش' سے اور تلاش سے
    میں خود سے کہتی ہوں ۔
    اپنی جنت گم گشتہ کی تلاش اور اپنی گمشدہ ہستی کی جستجو ''
    ''PARADISE LOST''
    سے اس کتاب تک، یہی ہر فنکار کا مسئلہ
    ہے ۔ یہی ہر فن کا محرک

    انسانوں کی طرح کتابیں بھی عدم سے وجود میں آتی ہیں ۔
    سانس لیتی ہیں ۔ مسکراتی ہیں
    اور زندگی کی گہما گہمی میں کھو جاتی ہیں ۔ انسانوں کی طرح
    کتابوں کی پیدائش کا بھی
    وقت مقرر ہوتا ہے ۔ شاید اسی لیے یہ کتاب جسے ''عدن '' کے نام سے
    پہلے وجود میں آنا تھا
    روک لی گئی اور ''پری خانہ'' کو وجود عطا کر دیا گیا ۔
    یہ واقعہ میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ مسافر کے کیے اس کے
    سفر کا ہر سنگ میل اہم ہوتا ہے ۔ ہر قدم اہم ہوتا ہے ۔
    کسی اور کے لیے اس کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو
    یوں بھی یہ دنیا تو ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے ۔ جہاں سب میں سے
    بیشتر نے
    جدید ترجیحات کی تیز رفتاری میں اپنی قدیم روحوں کو روند ڈالا ہے ۔
    انہوں نے اپنے شعلوں کو مدھم پڑنے، اپنے پھولوں کو زردانے کے لیے
    چھوڑ دیا ہے ۔
    اور ان کی اس روش پر میں بہت غم زدہ ہوں ۔
    ''کیوں غم زدہ ہوں؟'' میں خود سے پوچھتی ہوں ۔
    '' کیا میری روح قدیم ابھی تک زندہ ہے؟''



    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ


    عدن


    ہمیں اس باغ میں رہنے دیا ہوتا
    وہیں آہ و فغاں کرتے
    ہم اپنے ناتراشیدہ گناہوں کی معافی کے لیے
    جن کو ہمارے نام پر ۔۔۔ روز ازل سوچا گیا

    اس باغ میں سر سبز تھے ہم
    پتھروں میں سنگ تھے
    پھولوں میں گل تھے
    طائروں میں ہم بھی طائر تھے

    ہمیں اس نیند میں رہنے دیا ہوتا
    جہاں نوزائدہ، معصوم تھے ہم
    پر گنہ، ہر لذت تکمیل سے محروم تھے ہم
    جسم پر ملبوس آبی تھے
    مگر یہ دل حجابی تھے
    تو ہم اس عالم خوابیدگی میں
    نفس کی پاکیزگی میں
    ساتھ تیرے ۔۔۔۔ ساتھ اپنے
    ہو چکا وعدہ، وفا کرتے
    فرشتوں سے زیادہ ہم ۔۔۔ تری حمد وثنا کرتے

    تجھے بھی یاد تو ہو گا
    فرشتے جب ادب سے کہہ رہے تھے
    ''آپ وہ مخلوق پیدا کر رہے ہیں
    جو زمیں پر شورشیں برپا کرے گی
    خوں بہائے گی

    زمیں بھی کانپتی تھی
    آزمائش سے پناہیں مانگتی تھی

    آسمانوں میں ، زمینوں میں نہاں
    سب حیرتوں کو ۔۔۔ سارے رازوں کو
    تو ہر اک جاننے والے سے بڑھ کر جانتا ہے
    اپنی ہر اک مصلحت کو
    خود ہی بہتر جانتا ہے

    پھر بھی بہتر تھا
    ہمیں اس قریہء شاداب میں رہنے دیا ہوتا
    وہیں ۔۔۔ اک نامکمل خواب میں
    رہنے دیا ہوتا

    ***

    Comment


    • #3
      Re: عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ


      وہ ستارہ ساز آنکھیں


      وہ ستارہ ساز آنکھیں
      مجھے دور سے جو دیکھیں
      تو مرے بدن میں جاگے
      کسی روشنی کی خواہش
      کسی آرزو کا جادو
      کسی حسن کی تمنا
      کسی عشق کا تقاضا

      مرے بےقرار دل کو
      بڑی خامشی سے چھو لے
      کوئ نرم رو اداسی
      کوئ موج زندگی کی
      کوئ لہر سر خوشی کی
      کوئ خوش گوار جھونکا

      اسی آسماں کے نیچے
      اسی بے کراں خلا میں
      کہیں ایک سرزمیں ہے
      جو تہی رہی نمی سے
      رہی روشنی سے عاری
      رہی دور زندگی سے
      نہیں کوئ اس کا سورج
      نہ کوئ مدار اس کا

      اسی گمشدہ خلا سے
      کسی منزل خبر کو
      کسی نیند کے سفر میں
      کسی خواب مختصر میں
      کبھی یوں ہی بے ارادہ
      کبھی یوں ہی اک نظر میں
      جو کیا کوئ اشارہ
      وہ ستارہ ساز آنکھیں
      مجھے کر گئيں ستارہ

      ***

      Comment


      • #4
        Re: عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ


        میں تمہارے فسانے میں داخل ہوئی



        شام کی ملگجی روشنی
        راستوں کے کناروں پہ پھیلی ہوئی تھی
        فضا، زندگی کی اُداسی سے لبریز اور زرد تھی
        دُور تک ایک نیلے تسلسل میں بہتی ہوئی نم ہَوا
        سرد تھی
        آسماں نے زمیں کی طرف سر جُھکایا نہیں تھا
        ابھی اختِرشام نے اپنا چہرہ دِکھایا نہیں تھا

        کہ جب میں نے بیکار دنیا کے ہنگام سے اپنا دامن چُھڑایا
        دلِ مضطرب کو دِلاسا دیا
        آگے جانے کی جلدی میں
        جنگل پہاڑ اور دریا
        کسی کو پلٹ کر نہ دیکھا
        کہیں وقت کی ابتدائی حدوں پر کھڑے
        اپنے پتھریلے ماضی کی جانب
        بس اک الوداعی اشارہ کیا
        خواب کا ہاتھ تھاما
        نئے عزم سے سر کو اُونچا کیا
        اور تمہارے فسانے میں داخل ہوئی

        شام کی ملگجی روشنی راستوں کے کناروں پہ
        اُس پَل تھمی رہ گئی
        زندگی کی اُداسی سے لبریز ساری فضا
        دم بخود
        اور ہَوا اپنے پاؤں پہ جیسے جمی رہ گئی

        ***

        Comment


        • #5
          Re: عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ



          سالگرہ



          کہیں پناہ نہیں دشتِ رائگانی میں
          عجیب موڑ ہے یہ عمر کی کہانی میں

          خلا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے خلا
          زمین پاؤں کے نیچے سے جانے کب نکلی
          نجانے کب سے خلا آ گیا ہے زیر ِ قدم
          فلک تو خیر کبھی دوست تھا ۔۔۔ نہ ہو گا کبھی
          زمیں کہاں ہے، کہاں ہے زمیں، کہاں ہے زمیں؟

          اندھیرا چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک پھیلا
          اندھیرا پاؤں کے نیچے ۔۔۔ اندھیر آنکھوں میں
          کہاں ہے دھوپ، کہاں چاندنی، چراغ کی لَو
          وہ ملگجا سا اجالا کوئی ستاروں کا
          جو رات بھر کو سہارا ہو راہداروں کا

          کہاں ہے روشنی ۔۔۔ اِن منتظر مکانوں کے
          اداس شیشوں سے چَھنتی ہوئی ۔۔۔ بکھرتی ہوئی
          اداس راہگزر، ہر مکاں، مکین اداس
          اداس سارا نگر، آسماں، زمین اداس
          ہنسی کہاں ہے، کہاں ہے ہنسی، کہاں ہے ہنسی؟

          کرن کی طرح چمکتی نہیں ہنسی کوئی
          فضا کے دل میں دھڑکتی نہیں ہنسی کوئی

          ملال چاروں طرف ۔۔۔۔ آسماں تلک ہے ملال
          ملال، پاؤں کے نیچے کہ جس پہ ٹھہرا ہے
          وجود ۔۔۔ سائے کے مانند، وہم کی صورت
          خوشی کہاں ہے، کہاں ہے خوشی، کہاں ہے خوشی؟

          سزا ہے چاروں طرف ۔۔۔ آسماں تلک ہے سزا
          سزائے جرم نہیں یہ ۔۔۔ سزا ہے، ہونے کی
          سزا ہے پاؤںکے نیچے کہ بے زمینی ہے
          یہ زندگی ۔۔۔ جو کبھی زندگی تو تھی ہی نہیں
          پر اب تو صرف گماں، صرف بے یقینی ہے
          یقیں کہاں ہے، کہاں ہے یقیں، کہاں ہے یقیں؟

          نہ کوئی دوست، نہ ہمدم، نہ آشنا کوئی
          نہ بے وفا ہے کوئی اور نہ با وفا کوئی

          کوئی بھی راہ نہیں ۔۔۔ دشتِ رائگانی میں
          کہیں بھی موڑ نہیں، ہجر کی کہانی میں
          گرہ اک اور لگی ۔۔۔ رشتہء زمانی میں

          ***

          Comment


          • #6
            Re: عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ



            valentine,s day




            کسے خط لکھیں؟
            کس کو رنگیں ستاروں
            دمکتے ہوئے سرخ پھولوں
            دھڑکتی ہوئی آرزوؤں بھرا کارڈ بھیجیں
            بھلا کس دریچے پر اب
            صبح سے پیشتر
            نو شگفتہ گلابی کلی چھوڑ آئیں

            کسے فون کر کے بتائیں
            ہمیں اس سے کتنی محبت ہے
            آغاز عہد جوانی کا معصوم نغمہ
            وہ ساز غم عشق سے پھوٹتا اک ترانہ
            محبت کا غمگین افسانہ ---
            کس کو سنائیں؟

            'محبت'
            یہ اک لفظ دل کو بہت درد دینے لگا ہے
            محبت ، کہ جس کے فقط ہم دریدہ دلوں نے
            پرانے زمانوں میں کچھ خواب دیکھے
            محبت ، کہ جس کے دیے زخم
            ہم نے ہمیشہ اکیلے میں چاٹے
            محبت ، کہ جس کے بیانوں سے
            سارے زمانوں سے
            ہم نے فقط رنج پائے

            ہماری صدا ---
            اس محبت کے جنگل میں
            گر کر کہیں کھو گئی ہے
            ہماری ہنسی ---
            اس محبت کے رستے میں
            اک سرد پتھر پہ
            تھک ہار کر سو گئی ہے

            کوئی --- یادگار محبت کے اس
            سبز، چمکیلے دن میں
            ہماری ہنسی کو، کسی جگمگاتی کرن سے
            ذرا گدگدا کر جگائے،
            اندھیرے کے جنگل سے
            گم گشتہ اک خواب کو ڈھونڈ لائے
            جو بیتاب آنکھیں
            وہاں باغ میں ---
            زرد پتّوں پہ بکھری پڑی ہیں
            کوئی ان کو جا کر اٹھائے،

            'یہ ٹوٹا ہوا دل ---
            محبت کے قابل ہے'
            کوئی ہمیں بھی یہ مژدہ سنائے

            ***

            Comment


            • #7
              Re: عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ


              ہوائیں

              ہوائیں مری زندگی کو اڑائے لیے جا رہی ہیں
              ہوائیں مرے روز و شب کو
              خزاں دیدہ پتوں کی صورت
              اڑائے لیے جا رہی ہیں

              مجھے روز و شب کی ضرورت نہیں ہے
              مرے روز و شب میں سیاہی ہے
              زردی ہے، تنہائی ہے
              روشنی سے تہی ملگجی صبحیں
              لمبی دوپہریں
              سلگتی ہوئی چند شامیں
              بہت سرد اور زرد راتیں

              مجھے زندگی سے محبت نہیں ہے
              مری زندگی میں بہت روز و شب ہیں
              بہت روز و شب سے بنے سال ہیں
              سالہا سال ہیں
              دشت اور بحر ہیں
              چند برسوں پہ پھیلے ہوئے دشت
              جن میں کہیں اک شجر کا سہارا نہیں
              چند برسوں پہ پھیلے ہوئے بحر
              جن کا کوئی بھی کنارہ نہیں
              زندگی ۔۔۔۔ جس کے آغاز و انجام پر
              میری خواہش کا کوئی اجارہ نہیں

              روزو شب سے بنی زندگی
              جس میں اک یاد ہے
              جس میں اک خواب ہے
              یاد سے روز و شب
              خواب سے زندگی
              خواہش آخری

              خواہش آخری کو ہوائیں اڑائے لیے جا رہی ہیں
              مری زندگی کو
              ہوائیں اڑائے لیے جا رہی ہیں

              ***

              Comment


              • #8
                Re: عدن کے راستے پر ۔ ثمینہ راجہ

                Zabardast...

                Comment

                Working...
                X