یہ دنیا ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے مگر میری روح تنہا ہے ۔ اور اس کی تہہ میں ایک شعلہ ہے ۔
اس شعلے کی لو جلوت میں دھیمی پڑ جاتی ہے
اور خلوت میں اونچی ہو جاتی ہے ۔
بلند تر اور روشن تر۔
میرے دل میں ایک پھول ہے ۔ یہ پھول، ہجوم کی حدت سے مرجھانے لگتا ہے اور
تنہائی کی طراوت سے مہک اٹھتا ہے ۔
اس پھول کی خوشبو مجھے ایک باغ کی یاد دلاتی ہے ۔ اس گمشدہ جنت کی یاد، جس سے مجھے
میری خواہش کے برعکس، بے دخل کر دیا گیا
اور جس کی جستجو
ابدالآباد تک میرا مقدر کر دی گئی ۔
یاد پڑتا ہے، وہاں دھند کے روپہلے بادلوں میں ، حیرت زدہ زمین پر
میرے ساتھ کوئی تھا
کون تھا؟ اور اب کہاں ہے؟ وہ اس دنیا کے زرد راستوں پر ملے گا یا عدن کے سبز راستے پر؟
اس کی تلاش میں خود فراموشی کی طرف جانا ہو گا یا خود آگہی کی سمت پلٹنا ہو گا؟
یہ سوالات میرے لہو میں گونجتے ہیں اور ان سے نظمیں تخلیق ہوتی ہیں ۔
یہ سوالات، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح، ایک دل کے سوالات نہیں ہیں ۔
یہ تلاش، ایک فرد، ایک جسم، ایک روح، ایک دل کی تلاش نہیں ہے ۔
یہ سب کے سوالات ہیں ۔ یہ سب کی تلاش ہے ۔
کسی اور جگہ پر رہنا، کسی اور مقام کی جستجو کرنا ۔ اسی اور کے پاس ہونا، کسی اور کی آرزو کرنا ۔
یہی سب کا مقدر ہے
مقدر، جسے سب میں سے بیشتر، فراموش کر چکے ہیں ۔
مگر کسی فنکار کو اسے فراموش نہیں کرنا چاہیئے ۔ کسی شاعر کو تو ہرگز نہیں
''A poet,s life should be a true poem'' (Milton)
'شاعر کی زندگی واقعی نظم بن سکتی ہے ۔ لیکن سیرابی سے نہیں
پیاس سے ۔
نیند سے نہیں، خواب سے ۔ موجود سے نہیں، ناموجود سے ۔
حاصل سے نہیں، لاحاصل سے ۔
وصل سے نہیں، ہجر سے ۔ 'کاش' سے اور تلاش سے
میں خود سے کہتی ہوں ۔
اپنی جنت گم گشتہ کی تلاش اور اپنی گمشدہ ہستی کی جستجو ''
''PARADISE LOST''
سے اس کتاب تک، یہی ہر فنکار کا مسئلہ
ہے ۔ یہی ہر فن کا محرک
انسانوں کی طرح کتابیں بھی عدم سے وجود میں آتی ہیں ۔
سانس لیتی ہیں ۔ مسکراتی ہیں
اور زندگی کی گہما گہمی میں کھو جاتی ہیں ۔ انسانوں کی طرح
کتابوں کی پیدائش کا بھی
وقت مقرر ہوتا ہے ۔ شاید اسی لیے یہ کتاب جسے ''عدن '' کے نام سے
پہلے وجود میں آنا تھا
روک لی گئی اور ''پری خانہ'' کو وجود عطا کر دیا گیا ۔
یہ واقعہ میرے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ مسافر کے کیے اس کے
سفر کا ہر سنگ میل اہم ہوتا ہے ۔ ہر قدم اہم ہوتا ہے ۔
کسی اور کے لیے اس کی کوئی اہمیت ہو یا نہ ہو
یوں بھی یہ دنیا تو ایک پر شور اور پر ہجوم جگہ ہے ۔ جہاں سب میں سے
بیشتر نے
جدید ترجیحات کی تیز رفتاری میں اپنی قدیم روحوں کو روند ڈالا ہے ۔
انہوں نے اپنے شعلوں کو مدھم پڑنے، اپنے پھولوں کو زردانے کے لیے
چھوڑ دیا ہے ۔
اور ان کی اس روش پر میں بہت غم زدہ ہوں ۔
''کیوں غم زدہ ہوں؟'' میں خود سے پوچھتی ہوں ۔
'' کیا میری روح قدیم ابھی تک زندہ ہے؟''
ثمینہ راجہ
Comment