اس پری خانہء خیال میں ایک سو پانچ پریاں ہیں، اور پانچ ہیں ان کی شہزادیاں، پانچ بحریں ۔ یہ تقریباً پانچ ماہ میں نازل ہوئیں ۔ اپنی رضا سے، اپنی خوشی سے، اپنی ہی ترتیب سے۔
اس وفور سے کہ ان کے ریشمیں پروں کی سرسراہٹ اور نقرئی گھنٹیوں جیسی چہچہاہٹ سے، زمین اورآسمان کے درمیان جو کچھ تھا، گونج اٹھا ۔ انہوں نے اجنبی پھولوں کی خوشبو کی طرح مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ سنبھلنے کی مہلت ہی نہیں دی ۔
کیا سب ہی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ سب شاعروں کے ساتھ؟ مجھے نہیں معلوم! مجھے تو ایسا لگا جیسے تمام 'میوزز' نے ایک ساتھ پلٹ کر مجھ پر نظر کی اور بس! یہ آنکھیں جگمگا اٹھیں اور اس دل کی فضا
قاف کی سی ہو گئی ۔
سنبھلنے کی ذرا سی بھی مہلت ملتی تو مجھے ان پری پیکروں سے کچھ سوال کرنا تھے ۔ یہ کہ کن خوابوں کی تحسین کے لیے انہیں قرطاس پر اتارا جائے؟ کن نظروں کی تسکین کے لیے ان کی تصویر کشی کی جائے؟ کون ہے ان کے جمال کا طلب گار؟ کون ہے ان کے کمال کا پرستار؟
سخن کے بازار میں ایک سے ایک دکان سجی ہے ۔ سب بنا بنایا، ڈھلا ڈھلایا
''برائے فروخت'' کی تختی پیشانی پر سجائے موجود
کون دکاندار ہے، کون خریدار، کوئی پہچان نہیں! کون ہوس کار ہے، کون عاشق ِ زار، کوئی امتحان نہیں
لیکن حیرت تو یہ ہے کہ ان سوالوں کی اگر مہلت نہیں ملی ، تو نوبت بھی نہیں آئی ۔ کیونکہ یہ پریاں بے حد زیرک و دانا ہیں ۔ جانتی ہیں، جمال و فن کے اس سفر میں انہیں کہاں قیام کرنا ہے ۔ پہچانتی ہیں
کس دل میں دکان سجی ہے اور کس دل میں پری خانہ
ثمینہ راجہ
Comment