Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

پری خانہ - ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • پری خانہ - ثمینہ راجہ



    اس پری خانہء خیال میں ایک سو پانچ پریاں ہیں، اور پانچ ہیں ان کی شہزادیاں، پانچ بحریں ۔ یہ تقریباً پانچ ماہ میں نازل ہوئیں ۔ اپنی رضا سے، اپنی خوشی سے، اپنی ہی ترتیب سے۔
    اس وفور سے کہ ان کے ریشمیں پروں کی سرسراہٹ اور نقرئی گھنٹیوں جیسی چہچہاہٹ سے، زمین اورآسمان کے درمیان جو کچھ تھا، گونج اٹھا ۔ انہوں نے اجنبی پھولوں کی خوشبو کی طرح مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ سنبھلنے کی مہلت ہی نہیں دی ۔
    کیا سب ہی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے؟ سب شاعروں کے ساتھ؟ مجھے نہیں معلوم! مجھے تو ایسا لگا جیسے تمام 'میوزز' نے ایک ساتھ پلٹ کر مجھ پر نظر کی اور بس! یہ آنکھیں جگمگا اٹھیں اور اس دل کی فضا
    قاف کی سی ہو گئی ۔
    سنبھلنے کی ذرا سی بھی مہلت ملتی تو مجھے ان پری پیکروں سے کچھ سوال کرنا تھے ۔ یہ کہ کن خوابوں کی تحسین کے لیے انہیں قرطاس پر اتارا جائے؟ کن نظروں کی تسکین کے لیے ان کی تصویر کشی کی جائے؟ کون ہے ان کے جمال کا طلب گار؟ کون ہے ان کے کمال کا پرستار؟
    سخن کے بازار میں ایک سے ایک دکان سجی ہے ۔ سب بنا بنایا، ڈھلا ڈھلایا
    ''برائے فروخت'' کی تختی پیشانی پر سجائے موجود
    کون دکاندار ہے، کون خریدار، کوئی پہچان نہیں! کون ہوس کار ہے، کون عاشق ِ زار، کوئی امتحان نہیں
    لیکن حیرت تو یہ ہے کہ ان سوالوں کی اگر مہلت نہیں ملی ، تو نوبت بھی نہیں آئی ۔ کیونکہ یہ پریاں بے حد زیرک و دانا ہیں ۔ جانتی ہیں، جمال و فن کے اس سفر میں انہیں کہاں قیام کرنا ہے ۔ پہچانتی ہیں
    کس دل میں دکان سجی ہے اور کس دل میں پری خانہ


    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


    دشت میں اک طلسم آب کے ساتھ
    دور تک ہم گئے سراب کے ساتھ

    پھر خزاں آئ اور خزاں کے بعد
    خار کھلنے لگے گلاب کے ساتھ

    رات بھر ٹوٹتی ہوئ نیندیں
    جڑ گئیں سحر ماہتاب کے ساتھ

    ہم سدا کی بجھے ہوئے تھے
    وہ تھا پہلی سی آب و تاب کے ساتھ

    چھوٹی عمروں کی پہلی پہلی بات
    کچھ تکلف سے کچھ حجاب کے ساتھ

    اور پھر یہ نگاہ خیرہ بھی
    ڈوب جائے گی آفتاب کے ساتھ

    رات کی طشتری میں رکھی ہیں
    میری آنکھیں کسی کے خواب کے ساتھ

    اس گلی میں نہ کیسے کوئی جائے
    شام کو اس دل ِ خراب کے ساتھ

    یہ فقط رسم ہی نہیں اے دوست
    دل بھی شامل ہے انتساب کے ساتھ

    ***

    Comment


    • #3
      Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


      جیسے یہ درد سے بنی ہوئ تھی
      شام اس طرح کاسنی ہوئ تھی

      رات کی اپنی روشنی تھی بہت
      دھوپ کے جیسی چاندنی ہوئ تھی

      کوئ ذی روح دور دور نہ تھا
      اور خموشی بہت گھنی ہوئ تھی

      کون تھا بن میں بھیگنے والا
      چادر ابر کیوں تنی ہوئ تھی

      گونجتی تھی ہر ایک سانس کے ساتھ
      اک تمنا جو راگنی ہوئ تھی

      ایک مدت کے انتظار کے بعد
      اس دریچے میں روشنی ہوئ تھی

      آئینہ کیوں سیاہ لگتا تھا؟
      کیا اندھیرے سے میں بنی ہوئ تھی

      ***

      Comment


      • #4
        Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


        صورت صبح بہاراں چمن آراستہ ہے
        چہرہ شاداب ہے اور پیرہن آراستہ ہے

        شہر آباد ہے اک زمزمہء ہجر سے اور
        گھر تری یاد سے اے جان من ! آراستہ ہے

        جیسے تیار ہے آگے کوئی ہنگامہء زیست
        اس طرح راہ میں باغ عدن آراستہ ہے

        کوئی پیغام شب وصل ہوا کیا لائی
        روح سرشار ہوئی ہے، بدن آراستہ ہے

        اے غم دوست!تری آمد خوش رنگ کی خیر
        تیرے ہی دم سے یہ بزم سخن آراستہ ہے

        دل کے اک گوشہء خاموش میں تصویر تری
        پاس اک شاخ گل یاسمن آراستہ ہے

        رامش و رنگ سے چمکے ہے مرا خواب ایسے
        نیند میں جیسے کوئی انجمن آراستہ ہے

        اس نے سورج کی طرح ایک نظر ڈالی تھی
        رشتہء نور سے اب بھی کرن آراستہ ہے

        کیا کسی اور ستارے پہ قدم میں نے رکھا
        کیسی پیراستہ دنیا، زمن آراستہ ہے

        کیسے آئے گا زمانہ مجھے ملنے کے لیے
        میرے رستے میں تو دنیائے فن آراستہ ہے

        ***

        Comment


        • #5
          Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ



          ہم کسی چشم فسوں ساز میں رکھے ہوئے ہیں
          خواب ہیں،خواب کے انداز میں رکھے ہوئے ہیں

          تاب، انجام محبت کی بھلا کیا لاتے
          نا تواں دل، وہیں آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

          جلتے جائیں گے ابھی اور چراغوں سے چراغ
          جب تری انجمن ناز میں رکھے ہوئے ہیں

          اے ہوا! اور خزاؤں کے علاوہ کیا ہے؟
          وسوسے کیوں تری آواز میں رکھے ہوئے ہیں

          اک ستارے کو تو میں صبح تلک لے آئی
          بیشتر، رات کے آغاز میں رکھے ہوئے ہیں

          کٹ کے وہ پر توہواؤں میں کہیں اڑ بھی گئے
          دل یہیں حسرت پرواز میں رکھے ہوئے ہیں

          زندگی آج طلب گار ہے کچھ لمحوں کی
          جو کسی چشم پر اعجاز میں رکھے ہوئے ہیں

          ہم تو ہیں آب زر عشق سے لکھے ہوئے حرف
          بیش قیمت ہیں،بہت راز میں رکھے ہوئے ہیں

          ***

          Comment


          • #6
            Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


            دور کہیں تارا ٹوٹا تھا
            سویا رستا جاگ گیا تھا

            سر پر تاج نہ دل میں نخوت
            وہ کس دیس کا شہزادہ تھا

            لہریں لیتے اس پانی پر
            شیشے کا اک فرش بچھا تھا

            ایک کنارے پر میں ششدر
            دوسری جانب تو بیٹھا تھا

            بیچ میں پھیلی ساری دنیا
            تیرا میرا ملنا کیا تھا

            تیری آنکھیں کیوں بھیگی تھیں
            ہجر تو میرے گھر اترا تھا

            دھوپ ہوئی تھی شہر سے رخصت
            اندھیارا امڈا آتا تھا

            سرد ہوا کا بازو تھامے
            چاند بہت خاموش کھڑا تھا

            خواب کے اندر نیند بھری تھی
            نیند کے دل میں خواب چھپا تھا

            آخر کو اک پھول سنہرا
            ان ہونٹوں پر مرجھایا تھا

            ***

            Comment


            • #7
              Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


              نیند میں کیسی نیند بھری تھی
              آنکھ سے دل تک بے خبری تھی

              سپنے میں اک شیش محل تھا
              باغ کے اندر بارہ دری تھی

              نیلا امبر ، کالا بن تھا
              پھول گلابی، شاخ ہری تھی

              میرا چہرہ ان آنکھوں میں
              خوش فہمی یا خوش نظری تھی

              جیون کیسا رنگ بھرا تھا
              دنیا کتنی بھاگ بھری تھی

              خواب میں کون قریب آیا تھا
              کس آہٹ سے نیند ڈری تھی

              طشت میں تھا اک زہر کا پیالہ
              ساتھ ھی اک تلوار دھری تھی

              میرے دل میں اس کا غم تھا
              اس کے جام میں لال پری تھی

              ***

              Comment


              • #8
                Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


                فضائے شہر محبت بدلنے والی ہے
                دل تباہ کی قسمت بدلنے والی ہے

                بدلنے والی ہے اب سے ردائے لالہ وگل
                ہوائے دشت کی نیت بدلنے والی ہے

                پھر ایک جلوہء صد رنگ کے تسلسل میں
                نگاہ آئینہ ، حیرت بدلنے والی ہے

                بس ایک بار تجھے ہم قریب جاں دیکھیں
                پلٹ کے دیکھ، یہ حسرت بدلنے والی ہے

                کہیں پہ نیم اجالا، کہیں پہ تاریکی
                شب ملال کی صورت بدلنے والی ہے

                قمر نے ایک نئے برج میں قدم رکھا
                زمیں پہ ہجر کی ساعت بدلنے والی ہے

                فسون مرگ میں ہے زندگی کئی دن سے
                سو اپنا جامہء وحشت بدلنے والی ہے

                ہمیں تو عشق نے ہجرووصال میں رکھا
                سنا ہے وجہ رفاقت بدلنے والی ہے

                خبر ہوئی کہ ہے دل ہی نگار خانہء حسن
                نظر کی سمت مسافت بدلنے والی ہے

                نئی صدی ہے اور اس کے نئے تقاضے ہیں
                ہر آدمی کی ضرورت بدلنے والی ہے

                ***

                Comment


                • #9
                  Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


                  ہوائے یاد نے اتنے ستم کیے اس شب
                  ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب

                  فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی
                  بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب

                  بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے
                  ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب

                  عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں
                  دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب

                  چراح بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے
                  مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب

                  وہ چاک چاک تمنا،وہ زخم زخم بدن
                  تری نگاہ دلآرام نے سیے اس شب

                  خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی
                  وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب

                  وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی
                  نجانے صبح تلک کس طرح جیے اس شب

                  ***

                  Comment


                  • #10
                    Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ



                    کلفت جاں سے دور دور، رنج و ملال سے جدا
                    ہم نے تجھے رکھا، ہر ایک صورت حال سے جدا

                    آج نگاہ اور تھی، اور نگاہ سرد میں
                    ایک جواب اور تھا، میرے سوال سے جدا

                    شام اداس،پھول زرد،شمع خموش، دل حزیں
                    کوئی رہا تھا تھوڑی دیر بزم جمال سے جدا

                    ہم میں بھی کوئی رنگ ہو ذوق نظر کے ساتھ ساتھ
                    تم میں بھی کوئی بات ہو، شوق وصال سے جدا

                    تم کو نہ کچھ خبر ہوئی، آمد و رفت ہجر کی
                    خانہء عشق میں رہے، ایسے کمال سے جدا

                    کیسی عجب ہوا چلی،ایک ہوئے ہیں باغ و دشت
                    گل سے خفا ہے بوئے گل، رم ہے غزال سے جدا

                    دھند میں اور دھوپ میں،نیند میں اور خواب میں
                    ہم تھے مثیل سے الگ ، ہم تھے مثال سے جدا

                    ***

                    Comment


                    • #11
                      Re: پری خانہ - ثمینہ راجہ


                      پھول روش روش پہ تھے، رستہ ء صد چراغ تھا
                      کون کہے گا اِس جگہ دشت نہیں تھا، باغ تھا

                      اِس طرح درد سے بھرے اِس طرح ٹوٹ کر گرے
                      جیسے کہ چشم تھی سبو جیسے کہ دل ایاغ تھا

                      جب سے نگاہ ہو گئی اخترِ شام کی اسیر
                      شب کی نہ کچھ خبر ملی دن کا نہ کچھ سراغ تھا

                      ہم نے بھی خود کو حجرہء خواب میں رکھ لیا کہیں
                      کوئی جو کم نگاہ تھا کوئی جو کم فراغ تھا

                      وصل ِ زمین و آسماں دیکھ چکی تھی ایک بار
                      چہرہء شام ِ انتظار اس لیے باغ باغ تھا

                      اس میں تو کوئی شک نہیں ہم میں چمک دمک نہیں
                      آئنہء نگاہ ِ دوست آپ بھی داغ داغ تھا

                      سیرِ جہاں کے باب میں دونوں ہی سَیر چشم تھے
                      ایک کو صد ِ راہ دل، اک کے لیے دماغ تھا

                      صبح ہوئی تو سامنے چہرہء شہر ِ بے تپاک
                      رات ہوئی تو منتظر خانہء بے چراغ تھا

                      ***

                      Comment

                      Working...
                      X