Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ہفت آسمان - ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


    یہ میرے سفر کا ساتواں سنگِ میل ہے
    خیال تھا، یہاں پہنچ کر میں دم لوں گی اور اگلی منزل کا تعین کروں گی ۔
    مگر افسوس! اس پتھر پر بیٹھ کر احساس ہوا کہ سفر تو ابھی آغاز ہی نہیں ہوا ۔
    ابھی تو اس راستے پر قدم ہی نہیں رکھا جو عین منزل تک جاتا ہے ۔
    سات کتابیں لکھ ڈالیں، مگر وہ شعر تو کہا ہی نہیں، وہ نظم تو لکھی ہی نہیں
    جو شاعری کا جواز بن سکے ۔
    اردو شاعری میں حضرت امیر خسرو سے آج تک، کیسے کیسے نام
    کیسا کیسا کام پیش ِ نگاہ ہے ۔

    ہفت شہر ِ عشق را عطار گشت
    ما ہنوز اندرخم ِ یک کوچہ ایم

    فن کے باب میں قبول ِ عام اور بقائے دوام، دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔
    کسی کو ایک حاصل ہوتی ہے، کسی کو دوسری ۔۔۔۔۔
    بہت کم خوش بختوں کو یہ دونوں نعمتیں ارزانی ہوتی ہیں ۔

    مگر کیا شاعر قبول ِعام یا بقائے دوام کی خاطر لکھتا ہے؟
    شاعر کے پیش ِ نظر شاعری کے علاوہ کچھ اور ہونا چاہیئے؟
    میرا خیال ہے ۔۔۔ نہیں
    اگر کوئی شاعر ہے تو شاعری ہی اس کی مطلوب و مقصود ہونی چاہیئے ۔۔
    دل و نگاہ صرف اسی سے مسحور ۔۔ بدن صرف اسی کا اسیر ۔۔
    قلم صرف اسی کے تابع ۔
    شاعر کا راستہ، پیغمبروں کا، ولیوں کا، صوفیوں کا راستہ ہونا چاہیئے ۔
    کیونکہ خدا اپنے اسَرار
    شاعروں کی زبانوں کے ذریعے بھی افشا کرتا ہے



    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


    ازل سے، ساتھ کوئی راز آشنا تو نہیں
    یہ میرا دل کسی شاہد کا آئنہ تو نہیں

    ہر ایک سانس کے ساتھ ایک آہ گونجتی ہے
    نفس نفس میں کسی درد کی ثنا تو نہیں

    کسی کے خواب کی تعبیر تو نہیں ہیں ہم
    وہ خواب اور کسی خواب سے بنا تو نہیں

    جو کاٹ آئے ہیں، دکھ کا عجیب جنگل تھا
    جو آنے والا ہے، پہلے سے بھی گھنا تو نہیں

    صدائے انجم و مہتاب پر بھی دل خاموش
    یہ خاکداں کی کشش ہے، مری انا تو نہیں

    یہ شش جہات ہیں اور ان کے بعد ہے اک ذات
    اس آئنے میں پھر اپنا ہی سامنا تو نہیں؟

    ***

    Comment


    • #3
      Re: ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


      نہیں ۔۔۔ واقعہ تو نہیں ہم


      نہیں ۔۔۔ واقعہ تو نہیں ہم
      نجانے گئی شب کے ویران ماتھے پہ
      کس نے ہمیں لکھ دیا

      ہم تو خواہش کے کہرے میں لپٹے ہوئے
      مخملیں گھاس پر
      برف سی چاندنی کے تلے
      اک ذرا سو گئے تھے

      ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو دنیا نے آواز دی تھی
      اگر کوئی آواز آتی تو ۔۔۔۔
      نیند اتنی گہری کہاں تھی

      ہمیں کیا خبر ۔۔۔ ہم کو تم نے پکارا تھا
      تم نے پکارا جو ہوتا
      تو ہم کوئی پاتال میں تو نہ تھے

      ہم تو خوابوں کے گلزار میں تھے
      وہیں سبزہ زاروں میں
      مہکے ستاروں کے نیچے
      دمکتے گلابوں میں ۔۔۔ شبنم کے مانند
      کچھ دیر کو کھو گئے تھے

      نہیں ۔۔۔ گمشدہ تو نہیں ہم
      نجانے یہ گہرے، گھنے ہجر کی زرد ساعت پہ
      کس نے ہمیں ۔۔۔۔۔۔

      ***

      Comment


      • #4
        Re: ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


        بارش میں پہاڑ کی ایک شام


        بہت تیز بارش ہے
        کھڑکی کے شیشوں سے بوچھاڑ ٹکرا رہی ہے
        اگر میز سے سب کتابیں ہٹا دوں تو چائے کے برتن رکھے جا سکیں گے

        یہ بارش بھی کیسی عجب چیز ہے
        یوں بیک وقت دل میں خوشی اور اداسی کسی اور شے سے کہاں

        تم جو آؤ تو کھڑکی سے بارش کو اک ساتھ دیکھیں
        ابھی تم جو آؤ تو میں تم سے پوچھوں کہ دل میں خوشی اور اداسی
        مگر جانتی ہوں کہ تم کیا کہو گے

        مری جان
        اک چیز ہے تیز بارش سے بھی تند
        جس سے بیک وقت ملتی ہے دل کو خوشی اور اداسی
        محبت

        مگر تم کہاں ہو؟
        یہاں سے وہاں رابطے کا کوئ بھی وسیلہ نہیں ہے
        بہت تیز بارش ہے اور شام گہری ہوئ جا رہی ہے
        نجانے تم آؤ نہ آؤ

        میں اب شمع دانوں میں شمعیں جلا دوں
        کہ آنکھیں بجھا دوں؟

        ***
        Last edited by Hadijo; 23 November 2009, 04:07.

        Comment


        • #5
          Re: ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


          میں خود سے پوچھ رہی تھی،کہاں گئے مرے دن
          مجھے خبر ہی نہ تھی رائگاں گئے مرے دن

          گئے ہیں وحشت صحرا سمیٹنے کے لیے
          کہ سوئے بزم و سر گلستان گئے مرے دن

          بہت اداس نہ ہو دل شکستگی سے مری
          مرے حبیب،مرے رازداں ! گئے مرے دن

          خدا کرے کوئ جوئے مراد سامنے ہو
          بدوش گرد رہ کارواں گئے مرے دن

          کوئ نگاہ، کوئ دل، نہ کوئ حرف سپاس
          نہیں تھا کوئ بھی جب پاسباں ،گئے مرے دن

          بہت سے لوگ گلی کا طواف کرتے تھے
          بس اس قدر ہے مری داستاں،گئے مرے دن

          ***

          Comment


          • #6
            Re: ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


            تو بھی رخصت ہو رہا ہے دھوپ بھی ڈھلنے کو ہے
            میرے اندر اک چراغ شام غم جلنے کو ہے

            کب تلک اس ہجر میں آخر کو رونا چاہئے؟
            آنکھ بھی خوں ہو گئ دامن بھی اب گلنے کو ہے

            گلستاں میں پڑ گئ ہے رسم تجسیم بہار
            اپنے چہرے پر ہر اک گل،خون دل ملنے کو ہے

            اجنبی سی سر زمیں نا آشنا سے لوگ ہیں
            ایک سورج تھا شناسا،وہ بھی اب ڈھلنے کو ہے

            ہر نئ منزل کی جانب صورت ابر رواں
            میرے ہاتھوں سے نکل کرمیرا دل چلنے کو ہے

            شہر پر طوفان سے پہلے کا سناٹا ہے آج
            حادثہ ہونے کو ہے یا سانحہ ٹلنے کو ہے

            اک ہوائے تند اور ہمراہ کچھ چنگاریاں
            خاک سی اڑنے کو ہے اور آگ سی جلنے کو ہے

            سامنے ہے نیند کی لمبی مسافت آج شب
            کاروان انجم و مہتاب بھی چلنے کو ہے

            ***

            Comment


            • #7
              Re: ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


              وطن کے لئے


              وطن کے لئے نظم لکھنے سے پہلے
              قلم، حرف کی بارگہ میں
              بہت شرمسار و زبوں ہے
              قلم سر نگوں ہے
              قلم کیسے لکھے

              وطن! تو مری ماں کا آنچل جو ہوتا
              تو میں تجھ کو شعلوں میں گِھرتے ہوئے دیکھ کر۔۔ کانپ اٹھتی
              زباں پر مری۔۔۔ الاماں۔۔۔ اور آنکھوں میں اشکوں کا طوفان ہوتا

              وطن! تو مرا شیر دل بھائی ہوتا۔۔۔ تو
              تیرے لہو کے فقط ایک قطرے کے بدلے
              میں اپنے بدن کا یہ سارا لہو نذر کرتی
              شب و روز۔۔ تیری جوانی
              تری زندگی کی دعاؤں میں مصروف رہتی

              وطن! تو مرا خواب جیسا وہ محبوب ہوتا
              کہ جس کی فقط دید ہی۔۔ میرے جیون کی برنائی ہے
              میں ترے ہجر میں۔۔ ر1ت بھر جاگتی۔۔ عمر بھر جاگتی
              عمر بھر گیت لکھتی

              وطن! تو جو معصوم لختِ جگر میرا ہوتا
              تو۔۔ تیری اداؤں سے میں ٹوٹ کر پیار کرتی
              بلائیں تری۔۔ ساری اپنے لیے مانگ لاتی
              ترے پاؤں کو لگنے والی سبھی ٹھوکروں میں
              میں اپنا محبت بھرا دل بچھاتی

              وطن! تواگر میرے بابا سے میراث میں ملنے والی
              زمیں کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا بھی ہوتا
              کہ جس کے لیے میرا بھائی
              مرے بھائی کے خوں کا پیاسا ہوا ہے
              تو میں اپنی جاں کا کوئی حصہ اور جرعہء خوں تجھے پیش کرتی

              میں اپنے بدن پر کوئی وار۔۔ دل پر کوئی زخم سہتی
              تو پھر شعر کہتی

              قلم کیسے لکھے
              یہ آدھی صدی سے زیادہ پہ پھیلے بہانے
              یہ خود غرضیوں کے فسانے؟

              قلم۔۔۔ مہرباں شاعروں کا
              قلم۔۔۔ غمگسار عاشقوں کا
              قلم۔۔۔ آسمانی صحیفوں کو مرقوم کرنے کا داعی
              قلم۔۔۔ نوعِ انساں کی تاریخکا عینی شاہد
              قلم۔۔۔ یہ مری عمر بھر کی کمائی

              ازل سے ابد تک۔۔ جو راز آشنا ہے
              بہت سرخرو اور شعلہ نوا ہے
              قلم لکھ رہا ہے

              کہ میرے وطن!
              تو ہی پُرکھوں سے میراث میں ملنے والی زمیں ہے
              تو ہی سر پہ پھیلا ہوا آسماں ہے
              تو ہی ماں کی گود اور آنچل
              تو میرا محافظ، مرا شیر دل بھائی
              تو میرا محبوب، وہ خواب زادہ
              تو ہی میرا معصوم لختِ جگر ہے
              تو ہی میری پہچان اور شان ہے
              دل کی ٹھنڈک ہے
              نورِ نظر ہے

              ***

              Comment


              • #8
                Re: ہفت آسمان - ثمینہ راجہ


                چند گِلے بُھلا دیے چند سے درگزر کِیا
                قصہء غم طویل تھا ، جان کے مختصر کِیا

                جھوٹ نہیں تھا عشق بھی،زیست بھی تھی تجھے عزیز
                میں نے بھی اپنی عمر کو اپنے لیے بسر کِیا

                جیسے بھی تیرے خواب ہوں جو بھی ترے سراب ہوں
                میں نے تو ریت اوڑھ لی، میں نے تو کم سفر کِیا

                تیری نگاہِ ناز کا لطف و گریز ایک ساتھ
                شوق تھا کچھ اگر رہا،رنج تھا کچھ اگر کِیا

                ٹوٹ کے پھر سے جُڑ گیا خواب کا زرد سلسلہ
                میں نے ترے فراق کو نیند میں ہی بسر کِیا

                راہ بہت طویل تھی راہ میں اک فصیل تھی
                اُس کو بھی مختصر کِیا ،اِس میں بھی ایک در کِیا

                ہم تو عجیب لوگ تھے ہم کو ہزار روگ تھے
                خوب کِیا جو آپ نے غیر کو ہم سفر کِیا

                ***

                Comment

                Working...
                X