یہ میرے سفر کا ساتواں سنگِ میل ہے
خیال تھا، یہاں پہنچ کر میں دم لوں گی اور اگلی منزل کا تعین کروں گی ۔
مگر افسوس! اس پتھر پر بیٹھ کر احساس ہوا کہ سفر تو ابھی آغاز ہی نہیں ہوا ۔
ابھی تو اس راستے پر قدم ہی نہیں رکھا جو عین منزل تک جاتا ہے ۔
سات کتابیں لکھ ڈالیں، مگر وہ شعر تو کہا ہی نہیں، وہ نظم تو لکھی ہی نہیں
جو شاعری کا جواز بن سکے ۔
اردو شاعری میں حضرت امیر خسرو سے آج تک، کیسے کیسے نام
کیسا کیسا کام پیش ِ نگاہ ہے ۔
ہفت شہر ِ عشق را عطار گشت
ما ہنوز اندرخم ِ یک کوچہ ایم
فن کے باب میں قبول ِ عام اور بقائے دوام، دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔
کسی کو ایک حاصل ہوتی ہے، کسی کو دوسری ۔۔۔۔۔
بہت کم خوش بختوں کو یہ دونوں نعمتیں ارزانی ہوتی ہیں ۔
مگر کیا شاعر قبول ِعام یا بقائے دوام کی خاطر لکھتا ہے؟
شاعر کے پیش ِ نظر شاعری کے علاوہ کچھ اور ہونا چاہیئے؟
میرا خیال ہے ۔۔۔ نہیں
اگر کوئی شاعر ہے تو شاعری ہی اس کی مطلوب و مقصود ہونی چاہیئے ۔۔
دل و نگاہ صرف اسی سے مسحور ۔۔ بدن صرف اسی کا اسیر ۔۔
قلم صرف اسی کے تابع ۔
شاعر کا راستہ، پیغمبروں کا، ولیوں کا، صوفیوں کا راستہ ہونا چاہیئے ۔
کیونکہ خدا اپنے اسَرار
شاعروں کی زبانوں کے ذریعے بھی افشا کرتا ہے
ثمینہ راجہ
Comment