Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بازدید - ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بازدید - ثمینہ راجہ


    زندگی کے سفر کے دوران، بہت سی خواہشیں اور آرزوئیں
    پچھلی منزلوں پر رہ جاتی ہیں یا کھو جاتی ہیں ۔
    افسوس، زندگی کا راستہ ہمیشہ عمودی ہوتا ہے ۔
    اگر یہ دائرے میں سفر کرتی تو شاید کبھی نہ کبھی، کوئی نہ کوئی
    اپنی کسی گمشدہ خواہش یا بھولی بسری آرزو کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ۔
    تب شاید عمر کی رائگانی کا اتنا ملال نہ ہوتا ۔
    شاید پھر پلٹ کر دیکھنے کی مناہی نہ ہوتی ۔
    اور شاید پلت کر دیکھنے پر لوگ پتھر نہ ہوتے ۔
    لیکن اب تو قانون بھی موجود ہے اور مجھے سزا کا بخوبی اندازہ بھی ہے
    مگر شاعری
    جو میری شریانوں میں سنسناتی ہے ۔ میرے دل میں دھڑکتی ہے ۔
    مسکراتی ہے اور میرے کانون میں مسلسل سرگوشیاں کرتی ہے ۔
    کہ آرزو کا پھول جو میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک جلتے ہوئے راستے پر گر گیا تھا
    مجھے واپس جا کر مرجھانے سے پہلے اسے اٹھانا ہے ۔
    کہ برسوں پہلے پتھر پر جو ایک فیصلہ لکھا گیا تھا
    مجھے اس کو منسوخ کرنا ہے ۔
    کہ میری پشت پر محض چند قدم کی دوری پر تقدیر خندہ زن ہے ۔
    مجھے ایک بار پلٹ کر اس پر ہنسنا ہے ۔
    کہ مجھے سنگ زاد ہونے سے پہلے
    ایک جراتِ باز دید کرنی ہے


    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: بازدید - ثمینہ راجہ


    دن تری یاد سے آغاز کِیا

    آبِ حیراں پہ ترے حسن کی ضَو
    پردہء خاک میں تیرا ہی طلسم
    تیرے ہی اسم نے افلاک تلک
    پیکر ِ گِل کو سرافراز کِیا

    مِہر کے رنگ سے لوَح ِ دل پر
    ایک ہی حرف رقم ہوتا رہا
    اور اس حرف سے نسبت پہ مرے
    خامہء شاعری نے ناز کِیا

    چشم، اسَرار کی جویا میری
    دل ہے اک عمر سے شب زندہ دار
    دل، غم ِ دل کا سبب پوچھتا تھا
    تو نے افشا جو کوئی راز کِیا

    اب تو اچھی نہیں لگتی دنیا
    عشق نے اپنے معانی بدلے
    شب ترے ہجر سے منسوب ہوئی
    دن تری یاد سے آغاز کِیا

    ***

    Comment


    • #3
      Re: بازدید - ثمینہ راجہ


      باز دید

      تنہائی کے ایک زرد بن سے
      اب زندگی گرچہ آ گئی تھی
      امکان کے سبز راستے پر

      یہ راہ کے جس کے دونوں جانب
      مہکے ہوئے پھول راحتوں کے
      اور حدِ نظر تلک تھے بکھرے
      سب رنگ، نویلی چاہتوں کے

      اب دل میں نہیں تھا ہَول کوئی
      اور آنکھ میں گھُل رہی تھی جیسے
      فردا کی سپید روشنی سی

      جو نرم ہَوا ابھی چلی تھی
      وہ ایک عجیب سرخوشی سے
      اِس تن سے لپٹ لپٹ گئی تھی

      لیکن یہ ہَوا کی زلف میں ہے
      کن زرد اداسیوں کی خوشبو
      لگتا ہے کہ جیسے پیشتر بھی
      اِس دل پہ چلا ہے اس کا جادو

      مانوس ہے یا کہ اجنبی ہے
      بس اپنی طرف کو کھینچتی ہے
      اب پاؤں کہاں بڑھیں گے آگے
      جب زندگی خود ہی کہہ رہی ہے

      'جنگل میں یہ کیسا گلُ کِھلا ہے'
      جنگل کو پلٹ کے دیکھنا ہے

      ***

      Comment


      • #4
        Re: بازدید - ثمینہ راجہ


        محبت زندگی سے بھی ضروری تھی


        کہاں ہوں میں؟ ۔۔۔ کہاں ہے تو؟
        زمانوں سے مجھے اک جستجو
        دل بے نیاز ِ ہا و ہو
        تو ماورائے رنگ و بو ۔۔۔۔
        شام ِ سفر ۔۔۔ امید ہی رہوار ہے میرا
        ستارہ شام کا، حد ِ نظر سے بھی کچھ آگے اُڑتا جاتا ہے
        ہوائیں میرا پیچھا کر رہی ہیں
        زندگی کو راستے کے موڑ پر رکھ کر
        میں شاید بھول آئی ہوں ۔۔۔۔

        کہاں ہے تو؟
        کہاں ہے تو ۔۔۔ زمیں کا رنگ پھیکا پڑ گیا ہے
        دھوپ ڈھلنے سے بھی کچھ پہلے
        اندھیرا، منظروں پر پھیلتا ہے
        آسماں، اپنے کناروں سے نکل کر بہہ رہا ہے
        لوگ، یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں
        راستے پر رات کی آہٹ

        کہاں ہوں میں؟
        کہاں ہوں میں کہ سارے لوگ
        یادوں سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں
        لوگ ۔۔۔ سارے لوگ
        سارے ۔۔۔ درد میں بھیگے ہوئے اور آس میں لتھڑے ہوئے
        سب ۔۔۔ زندگی کو اپنے اپنے ٹوٹتے کاندھوں پہ لادے
        منزلوں پیچھے رُکے ہوں گے
        رُکے ہوں گے ۔۔۔ پلٹ کر جا چھکے ہوں گے ۔۔۔
        خدا جانے

        کہاں ہے دل؟
        کہاں ہے دل ۔۔۔ نہیں تھا ۔۔۔۔
        ہاں مگر میں نے یہ سمجھا تھا
        کہ میری جستجو کے ساتھ ہے
        سارے جہاں کے رنگ و بو کے ساتھ ہے
        اور زندگی کی آرزو کے ساتھ ہے
        گرچہ محبت ۔۔۔۔ زندگی سے بھی ضروری تھی
        مگر اب تو بہت ہلکی ۔۔۔ کسک سی ہے

        ***

        Comment


        • #5
          Re: بازدید - ثمینہ راجہ


          آشوب


          کیا آہ بھرے کوئ
          جب آہ نہیں جاتی
          دل سے بھی ذرا گہری
          اور عرش سے کچھ اونچی

          کیا نظم لکھے کوئ
          جب خواب کی قیمت میں
          آدرش کی صورت میں
          کشکول گدائ کا
          شاعر کو دیا جائے
          اور روک لیا جاۓ
          جب شعر اترنے سے
          بادل سے ذرا اوپر
          تاروں سے ذرا نیچے

          کیا خاک لکھے کوئ
          جب خاک کے میداں پر
          انگلی کو ہلانے سے
          طوفان نہیں اٹھتا
          جب شاخ پہ امکاں کی
          اس دشت تمنا میں
          اک پھول نہیں کھلتا

          رہوار نہیں رکتے
          موہوم سی منزل پر
          آنکھوں کے اشارے سے
          اور نور کی بوندوں کی
          بوچھاڑ نہیں ہوتی
          اک نیلے ستارے سے

          جب دل کے بلاوے پر
          اس جھیل کنارے پر
          پیغام نہیں آتا
          اک دور کا باشندہ
          اک خواب کا شہزادہ
          گلفام، نہیں آتا

          بستی میں کوئ عورت
          راتوں کو نہیں سوتی
          جاگی ہوئ عورت کی
          سوئ ہوئ قسمت پر
          جب کوئ بھی دیوانہ
          بے چین نہیں ہوتا
          دہلیز کے پتھر سے
          ٹکرا کے جبیں اپنی
          اک شخص نہیں روتا

          جب نیند کے شیدائ
          خوابوں کو ترستے ہیں
          اور دیکھنے کے عادی
          بینائ سے ڈرتے ہیں
          رہ رہ کے اندھیرے سے
          آنکھوں میں اترتے ہیں

          آنکھوں کے اجالوں سے
          ان پھول سے بچوں سے
          کہہ دو کہ نہ اب ننگے
          پاؤں سے چلیں گھر میں
          اس فرش پہ مٹی کے
          اب گھاس نہیں اگتی
          اب سانپ نکلتے ہیں
          دیوار سے اور در سے

          اب نور کی بوندوں سے
          مہکی ہوئ مٹی میں
          انمول اجالے کے
          وہ پھول نہیں کھلتے
          اب جھیل کنارے پر
          بچھڑے بھی نہیں ملتے
          بستی میں کوئ عورت
          راتوں کو نہیں سوتی
          اور جاگنے والوں سے
          اب نظم نہیں ہوتی

          کیا نظم لکھے کوئ
          جب جاگنے سونے میں
          پا لینے میں،کھونے میں
          جب بات کے ہونے میں
          اور بات نہ ہونے میں
          کچھ فرق نہ رہ جاۓ
          کیا بات کرے کوئ

          ***

          Comment

          Working...
          X