زندگی کے سفر کے دوران، بہت سی خواہشیں اور آرزوئیں
پچھلی منزلوں پر رہ جاتی ہیں یا کھو جاتی ہیں ۔
افسوس، زندگی کا راستہ ہمیشہ عمودی ہوتا ہے ۔
اگر یہ دائرے میں سفر کرتی تو شاید کبھی نہ کبھی، کوئی نہ کوئی
اپنی کسی گمشدہ خواہش یا بھولی بسری آرزو کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ۔
تب شاید عمر کی رائگانی کا اتنا ملال نہ ہوتا ۔
شاید پھر پلٹ کر دیکھنے کی مناہی نہ ہوتی ۔
اور شاید پلت کر دیکھنے پر لوگ پتھر نہ ہوتے ۔
لیکن اب تو قانون بھی موجود ہے اور مجھے سزا کا بخوبی اندازہ بھی ہے
مگر شاعری
جو میری شریانوں میں سنسناتی ہے ۔ میرے دل میں دھڑکتی ہے ۔
مسکراتی ہے اور میرے کانون میں مسلسل سرگوشیاں کرتی ہے ۔
کہ آرزو کا پھول جو میرے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک جلتے ہوئے راستے پر گر گیا تھا
مجھے واپس جا کر مرجھانے سے پہلے اسے اٹھانا ہے ۔
کہ برسوں پہلے پتھر پر جو ایک فیصلہ لکھا گیا تھا
مجھے اس کو منسوخ کرنا ہے ۔
کہ میری پشت پر محض چند قدم کی دوری پر تقدیر خندہ زن ہے ۔
مجھے ایک بار پلٹ کر اس پر ہنسنا ہے ۔
کہ مجھے سنگ زاد ہونے سے پہلے
ایک جراتِ باز دید کرنی ہے
ثمینہ راجہ
Comment