Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

باغ شب - ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • باغ شب - ثمینہ راجہ


    کوئی شخص تھا ۔ اُس نے ایک عمرجس تنگ و تاریک حجرے میں گزار دی، اُس کے پچھواڑے کھلنے والی کھڑکی کبھی نہیں کھولی ۔ حالانکہ وہ کھڑکی ایک خوب صورت باغ میں کھلتی تھی ۔
    کیونکہ اس شخص، اس بے نیاز، اس درویش کے اپنے باطن میں ایک باغ کِھلا تھا ۔ کیونکہ وہ شخص ' میر' تھا ۔ شاعر

    شاعر بھی سب آدمیوں جیسا ایک آدمی ہی ہوتا ہے ۔ لیکن شاید اُس کا خمیر تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے ۔ شاید اس کے اجزائے ترکیبی میں ایک عنصر کم ہوتا ہے، یا ایک عنصر زیادہ ۔ کیونکہ اس کے اندر کبھی کبھی ایک لہر سی اٹھتی ہے، ایک ہوا سی چلتی ہے، ایک باغ سا کھلتا ہے ۔
    راتوں کو جب ساری دنیا گہری نیند میں ہوتی ہے، وہ چونک کر جاگ اٹھتا ہے ۔ اسے زمین اور آسمان کے درمیان پھیلی ہوئی خاموشی میں ایک دھمک سنائی دینے لگتی ہے ۔ جیسے دل کے ساتھ ساتھ پوری کائنات دھڑک رہی ہو ۔ اور اس کے اندر ایک عجیب سرسراہٹ ہونے لگتی ہے ۔ پھیلنے لگتی ہے، آہستہ آہستہ، نس نس میں، پور پور میں ۔ پھر آسمان کے پوشیدہ منّور گوشوں سے، شاعری اس کے دل پر اترتی ہے ۔
    اور اس کے باطن میں ایک باغ کھل اٹھتا ہے ۔ خوابوں کا، یادوں کا، زخموں کا،
    شاعری کا باغ ۔

    جیسے میں رہتی ہوں، خوابوں کے ساتھ، یادوں کے ساتھ، زخموں کے ساتھ، شاعری کے ساتھ، باغ ِ شب میں ۔
    ہر شاعر کی طرح، مغموم، سرشار


    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: باغ شب - ثمینہ راجہ


    دل میں چھپی ہوئی تھی جو، زینتِ بام ہو گئی
    آنکھ اٹھی تو ساری بات بر سرِ عام ہو گئی

    ایک رفیق تھا سو دل اب ترا دوست ہو گیا
    جو بھی متاع ِ خواب تھی سب ترے نام ہو گئی

    دیکھا نہیں ہے آفتاب، نصف نہار پر کبھی
    عرصہء زندگی میں بس صبح سے شام ہو گئی

    خواہشِ ِ ناتمام کو پیش ِ زمانہ جب کِیا
    رم ہی کبھی کِیا نہ تھا، اِس طرح رام ہو گئی

    شام کے راستے پہ تھا ایک خیال ہم رکاب
    پھر تو ہَوا بھی ساتھ ساتھ محو ِ خرام ہو گئی

    کیسی اڑان کی ہمیں تجھ سے امید تھی مگر
    زندگی! تُو بھی طالبِ دانہ و دام ہو گئی

    کلفت ِ جاں سے ایک ہی ساعتِ خوش بچائی تھی
    اور وہ نذر ِ گردش ِ ساغر و جام ہو گئی

    میں نہ جھپک سکی پلک مجھ پہ جھکا تھا جب فلک
    حد سے بڑھی تو خامشی، خود ہی کلام ہو گئی

    شہر میں ان کے نام کے چند چراغ جل اٹھے
    راہروان ِ شوق کو دشت میں شام ہو گئی

    ***

    Comment


    • #3
      Re: باغ شب - ثمینہ راجہ


      شاید کہ موج ِ عشق جنوں خیز ہے ابھی
      دل میں لہو کی تال بہت تیز ہے ابھی

      ہم نے بھی مستعار لیا اُس سے رنگِ چشم
      اپنی طرح سے وہ بھی کم آمیز ہے ابھی

      پھر آبِ سرخ آنکھ سے بہتا دکھائی دے
      گویا یہ دل ملال سے لبریز ہے ابھی

      اک نونہال ِ خواب ہے دنیا کی زد پر آج
      اِس غم کی خیر ہو کہ یہ نوخیز ہے ابھی

      سب ذرّہ ہائے نیلم و الماس ، گردِ راہ
      میرے لیے وہ چشم گہر ریز ہے ابھی

      کیا جانیے رہے گا کہاں تک یہ دل اسیر
      کیا کیجئے وہ شکل دلآویز ہے ابھی

      دیکھا نہیں ہے کوئی بھی منظر نظر کے پاس
      رہوار ِ عمر، طالبِ مہمیز ہے ابھی

      ***
      Last edited by Hadijo; 23 November 2009, 03:52.

      Comment


      • #4
        Re: باغ شب - ثمینہ راجہ


        جاگیں گے کسی روز تو اس خوابِ طرب سے
        ہم پھول ہی چنتے رہے باغیچہء شب سے

        پھر ایک سفر۔ ۔ ۔ اور وہی حرفِ رفاقت
        سمجھے تھے، گزر آئے ہیں ہم تیری طلب سے

        خوش دل ہے اگر کوئی تو کیا اُس کا یہاں کام
        یہ بارگہِ غم ہے، قدم رکھو ادب سے

        اب موسم ِ جاں سے بھی یقیں اٹھنے لگا ہے
        دیکھا ہے تجھے رنگ بدلتے ہوئے جب سے

        یاں بھی وہی بیگا نہ روی، اپنے خدا سی
        مانگی جو کبھی کوئی دعا شہر کے رب سے

        چونکی ہوں تو دیکھا کہ وہ ہمراہ نہیں ہے
        الجھن میں ہوں کس بات پہ، کس موڑ پہ، کب سے

        یہ درخورِ ہنگامہ تو پہلے بھی کہاں تھی
        ہول آئے مگر آج تو ویرانی ِ شب سے

        کچھ، دوست بھی مصروف زیادہ ہوئے اور کچھ
        پم دور ہیں ، افسردگی ِ دل کے سبب سے

        ***

        Comment

        Working...
        X