کوئی شخص تھا ۔ اُس نے ایک عمرجس تنگ و تاریک حجرے میں گزار دی، اُس کے پچھواڑے کھلنے والی کھڑکی کبھی نہیں کھولی ۔ حالانکہ وہ کھڑکی ایک خوب صورت باغ میں کھلتی تھی ۔
کیونکہ اس شخص، اس بے نیاز، اس درویش کے اپنے باطن میں ایک باغ کِھلا تھا ۔ کیونکہ وہ شخص ' میر' تھا ۔ شاعر
شاعر بھی سب آدمیوں جیسا ایک آدمی ہی ہوتا ہے ۔ لیکن شاید اُس کا خمیر تھوڑا سا مختلف ہوتا ہے ۔ شاید اس کے اجزائے ترکیبی میں ایک عنصر کم ہوتا ہے، یا ایک عنصر زیادہ ۔ کیونکہ اس کے اندر کبھی کبھی ایک لہر سی اٹھتی ہے، ایک ہوا سی چلتی ہے، ایک باغ سا کھلتا ہے ۔
راتوں کو جب ساری دنیا گہری نیند میں ہوتی ہے، وہ چونک کر جاگ اٹھتا ہے ۔ اسے زمین اور آسمان کے درمیان پھیلی ہوئی خاموشی میں ایک دھمک سنائی دینے لگتی ہے ۔ جیسے دل کے ساتھ ساتھ پوری کائنات دھڑک رہی ہو ۔ اور اس کے اندر ایک عجیب سرسراہٹ ہونے لگتی ہے ۔ پھیلنے لگتی ہے، آہستہ آہستہ، نس نس میں، پور پور میں ۔ پھر آسمان کے پوشیدہ منّور گوشوں سے، شاعری اس کے دل پر اترتی ہے ۔
اور اس کے باطن میں ایک باغ کھل اٹھتا ہے ۔ خوابوں کا، یادوں کا، زخموں کا،
شاعری کا باغ ۔
جیسے میں رہتی ہوں، خوابوں کے ساتھ، یادوں کے ساتھ، زخموں کے ساتھ، شاعری کے ساتھ، باغ ِ شب میں ۔
ہر شاعر کی طرح، مغموم، سرشار
ثمینہ راجہ
Comment