میں شعرکیوں کہتی ہوں، نہیں جانتی ۔ اس کے لیے میرے پاس کوئی جواز نہیں ہے ۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اور پہلی مرتبہ آنکھیں کھول کر خود کو دیکھا تو منکشف ہوا کہ میں پیدائشی طور پر کچھ چیزوں کی اسیر ہوں ۔ زندگی، شاعری، محبت اور غم ۔ زندگی، جو ایک بار ملتی ہے اور کئی بار بسر ہوتی ہے ۔ جتنی ستم شعار ہے اتنی ہی عزیز ۔ زندگی، جس طرح وہ میرے ساتھ پیش آئی ۔ شاعری، جب اترتی ہے تو اپنے ساتھ نہا لے جاتی ہے ۔ پاؤں اکھڑ جاتے ہیں ۔ سانس پھول جاتی ہے ۔ شاعری، جس طرح وہ مجھ پر نازل ہوئی۔
محبت، جو آدمی کی کایا پلٹ دیتی ہے ۔ اپنے سوا کچھ یاد نہیں رہنے دیتی ۔ جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے ۔ محبت، جس طرح وہ میرے وجود پر چھائی رہی ۔ اور غم، جس کے حضور میں سراپا سپاس ہوں ۔ غم، جو گہرے پانیوں میں لے جاتا ہے ۔ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔ باقی سب کچھ محو کر دیتا ہے ۔ غم، جس طرح وہ ہمیشہ میرے دل کے گرد لپٹا رہا ۔
ہرشخص عمر کے کسی نہ کسی حصے میں خواب ضرور دیکھتا ہے اور سچائی سے پیار ضرور کرتا ہے ۔ مگر میں نے پوری عمر، سچائی کے عشق میں اور خواب کی کیفیت میں بسر کی ہے ۔ اگر کبھی کوئی سچ مجھ پر ہویدا ہوتا ہے، تو وہ بھی ایک خواب ہی لگتا ہے
ثمینہ راجہ
Comment