Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ہویدا - ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ہویدا - ثمینہ راجہ


    میں شعرکیوں کہتی ہوں، نہیں جانتی ۔ اس کے لیے میرے پاس کوئی جواز نہیں ہے ۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اور پہلی مرتبہ آنکھیں کھول کر خود کو دیکھا تو منکشف ہوا کہ میں پیدائشی طور پر کچھ چیزوں کی اسیر ہوں ۔ زندگی، شاعری، محبت اور غم ۔ زندگی، جو ایک بار ملتی ہے اور کئی بار بسر ہوتی ہے ۔ جتنی ستم شعار ہے اتنی ہی عزیز ۔ زندگی، جس طرح وہ میرے ساتھ پیش آئی ۔ شاعری، جب اترتی ہے تو اپنے ساتھ نہا لے جاتی ہے ۔ پاؤں اکھڑ جاتے ہیں ۔ سانس پھول جاتی ہے ۔ شاعری، جس طرح وہ مجھ پر نازل ہوئی۔
    محبت، جو آدمی کی کایا پلٹ دیتی ہے ۔ اپنے سوا کچھ یاد نہیں رہنے دیتی ۔ جینے دیتی ہے نہ مرنے دیتی ہے ۔ محبت، جس طرح وہ میرے وجود پر چھائی رہی ۔ اور غم، جس کے حضور میں سراپا سپاس ہوں ۔ غم، جو گہرے پانیوں میں لے جاتا ہے ۔ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے ۔ باقی سب کچھ محو کر دیتا ہے ۔ غم، جس طرح وہ ہمیشہ میرے دل کے گرد لپٹا رہا ۔
    ہرشخص عمر کے کسی نہ کسی حصے میں خواب ضرور دیکھتا ہے اور سچائی سے پیار ضرور کرتا ہے ۔ مگر میں نے پوری عمر، سچائی کے عشق میں اور خواب کی کیفیت میں بسر کی ہے ۔ اگر کبھی کوئی سچ مجھ پر ہویدا ہوتا ہے، تو وہ بھی ایک خواب ہی لگتا ہے


    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: ہویدا - ثمینہ راجہ


    یارب! لبِ خموش کو ایسا جمال دے
    جو گفتگو کے سارے ہی لہجے اجال دے

    سوزِ درون ِ قلب کو اتنا کمال دے
    جو مجھ کو ایک شمع کے قالب میں ڈھال دے

    پردے ہٹا، دکھا دے تجلّی سے شش جہات
    پھر مطمئن وجود کو روح ِ غزال دے

    وہ خواب مرحمت ہو کہ آنکھیں چمک اٹھیں
    وہ سر خوشی عطا ہو کہ دنیا مثال دے

    وہ حرف لکھ سکوں کہ بنے حرف ِ پُر اثر
    اک کام کر سکوں تو مجھے گر مجال دے

    میں اپنی شاعری کے لیے آئنہ بنوں
    راحت نہیں، تو مجھ کو بقائے ملال دے

    تیرے ہی آستاں پہ جھکی ہو جبین ِ دل
    اپنے ہی در کے واسطے خوئے سوال دے

    ***

    Comment


    • #3
      Re: ہویدا - ثمینہ راجہ


      اچانک

      سرد تھے ہونٹ
      بہت زرد تھی یہ شاخِ بدن
      سخت پتھرائی ہوئی تھیں آنکھیں
      دشت کی طرح تھی ساری دنیا
      آسماں،درد کا لمبا صحرا

      جانے کیا بات چلی باتوں سے
      جانے کس طرح ترا ذکر چھڑا
      ایسا لگتا ہے تنِ مردہ میں
      روح پھونکی ہے کسی نے تازہ

      ***

      Comment


      • #4
        Re: ہویدا - ثمینہ راجہ


        جنگل


        جاگتی آنکھوں سے میں نے خواب یہ دیکھا کہ جنگل ہے
        گھنے پیڑوں، گھنیری جھاڑیوں، وحشت بھری پگڈنڈیوں
        ویران راہوں اور گہری کھائیوں کا ایک جنگل ہے،
        گجر دم کا سماں ہے ۔۔ چند گز کے فاصلے سے
        بھیڑیوں کے غول کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں
        رفتہ رفتہ ان صداؤں پر
        کسی کوئل کی مدھ ماتی صداؤں کا فسوں غالب ہوا جاتا ہے
        کوئل صبح کے دلکش سکوں پرور ترانے گا رہی ہے
        جب کسی جانب سے شیروں کی دہاڑیں
        پورے جنگل کی فضا میں گونج اٹھتی ہیں ۔۔ تو جنگل کانپ جاتا ہے،
        میں گھبرا کر ۔۔ سراسیمہ سی ہو کرایک جانب ہٹنے لگتی ہون
        سنہری چوٹیوں والے گھنیرے پیڑ کے سینے سے لگ جاتی ہوں
        اور تھوڑا سکوں محسوس کرتی ہوں
        گماں ہوتا ہے ۔۔ دنیا کے جھمیلوں سے الگ ہو کر
        میں ماں کی مہرباں آغوش میں سمٹی ہوئی ہوں
        پیڑ کی اک شاخ مجھ کو تھپکیاں دیتی ہے
        تب ''زن'' سے کوئی شے میرے قدموں سے ذرا ہٹ کر گری ہے
        ملگجی سی روشنی میں، میں نے دیکھا ہے
        وہ اک پھنیر، سیہ، میری کلائی سے ذرا موٹا
        بڑا سا ۔۔ سانپ ہے
        میں چیخ اٹھتی ہوں ۔۔ تڑپ کر بے تحاشا دوڑنے لگتی ہوں
        اس دم پیڑ کی شاخوں سے لٹکے
        شہد کے چھتے میں اک ہلچل سی ہو تی ہے
        سپاہِ نیش زن میرے تعاقب کے لیے ۔۔ پر تولتی ہے
        خوف اور دہشت کے ان لمحوں میں ۔۔ آنکھیں موند کر
        میں ایک پگڈنڈی پہ ہو لیتی ہوں
        لیکن کون بتلائے ۔۔ یہ پگڈنڈی کسی بستی کی جانب جا رہی ہے
        یا کوئی خونخوارشیر اس کو
        کچھاروں کی طرف جانے کو ہی رستہ بنائے ہے،
        اسی پل ۔۔ اک جگہ مجھ کو مہک محسوس ہوتی ہے
        میں آنکھیں کھولتی ہوں
        اف، یہ خطّہ غالباً جنگل کے ہرحصّے سے بڑھ کر خوب صورت ہے
        یہاں ہر سمت ہی مخمل کی اک گہری ہری چادر بچھی ہے
        اوس میں بھیگی ہوئی ۔۔ اور چار جانب
        جنگلی پھولوں کی خود رو جھاڑیاں ہیں اور بیلیں ہیں
        میں سب کچھ بھول کر اک پھول کی جانب لپکتی ہوں
        معاً اک سرسراتی بیل کی لچکیلی ٹہنی ۔۔ میرے بازو پر تڑپتی ہے
        لپٹتی ہی چلی جاتی ہے ۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے
        کہ اس کا گوشت کھانے اور خوں پی کر گزارا کرنے والی
        جھاڑیوں سے کچھ تعلق ہے ۔۔ میں چیخیں مارتی ہوں
        میں مدد کے واسطے آواز دیتی ہوں ۔۔ میں روتی ہوں
        میں اس لمحے تو سچ مچ ہچکیاں لے لے کے روتی ہوں
        مگر کوئی نہیں سنتا!
        درندوں کی کچھ آوازیں مرے کانوں میں پڑتی ہی ۔۔۔۔۔
        ادھر زہریلی آدم خور بیلوں کا شکنجہ ۔۔ تنگ ہوتا جا رہا ہے
        وہ مری شہ رگ کو جکڑے ۔۔ میرا خوں پینے لگی ہیں
        میری آنکھیں درد کی شدّت سے پھٹنے کو ہیں
        میرے منہ سے کچھ بے ربط آوازیں نکلتی ہیں
        مگر اب ذہن سُن ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
        آخری لمحوں میں ۔۔ میں نے آنکھ بھر کر
        جسم و جاں کی ساری قوت
        اپنی آنکھوں میں اکٹھی کر کے ۔۔ دیکھا ہے
        ذرا کچھ فاصلے پر ۔۔اک پہاڑی کے ادھر ۔۔ سورج ابھرتا آ رہا ہے
        اور اس کی خوشنما کرنیں ۔۔ اندھیروں کو ہرا دینے پہ نازاں ہیں
        سو اب میری نگاہوں میں حقیقت کا اجالا گھلتا جاتا ہے
        میں اس دم ۔۔ تم سے محوِ گفتگو ہوں
        اور تمہاری ذات کے منظر ۔۔ مری آنکھوں پہ کھلتے ہیں

        ***

        Comment

        Working...
        X