ذرا بیٹھ تو مرے روبرو تجھے اشک اشک اتار لوں
ترا لفظ لفظ ہے داستاں میں غزل کو تجھ سے سنوار لوں
کسی رات میں کسی خواب میں مری زندگی مرے پاس آ
اسی رات میں اسی خواب میں میں یہ زندگی بھی گزار لوں
وہ ہی خوب تھے وہ ہی خوب تر ترے ساتھ پل جو گزر گئے
وہ ہی یاد گر مرے ساتھ ہو میں اجاڑ دل کو سنوار لوں
ترے روپ کو نہ نظر لگے ذرا بادلوں کی تو اوٹ لے
مری چاندنی میں نظر تری کبھی چاند سے بھی اتار لوں
مری یاد سے کسی شام کومرے ہم نشیں تو سجا ذرا
اسی شام میں کبھی ہوش کو میں جنوں کی حد سے گزار لوں
س ن مخمور
امر تنہائی
Comment