Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Tou Dhoondh Khuda Insaano main!

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: Tou Dhoondh Khuda Insaano main!

    Originally posted by admin View Post
    ik nuqtey vich gal mukdi aey
    مسعود بھائی کہ ساتھ انتہائی ادب کے ساتھ اختلاف کروں گا کہ بات بہت دور نکل گئی ۔ ۔ ۔ ۔
    اگر چہ بات خود شاعر نے واضح کردی تھی پھر اس کے بعد سسٹر سارا نے بھی کمال وضاحت فرمائی مگر مسعود بھائی شاید پوائنٹ پک نہیں کر پائے ۔ ۔ ۔ ۔پہلی چیز یہ سمجھ لیجیئے کہ کلام میں اصل متکلم کے الفاظ ہی ہوتے ہیں اور اگر ایسی عبارت ہو جو کہ اپنے مفھوم میں بالکل واضح ہو یعنی اس کے الفاظ کے کوئی بھی معقول تاویل یا توجیہ نہ پیش کی جاکسے تو ایسا کلام اگر کسی بھی ذات یا ہستی پر حرف کا باعث بنے تو اسے تلف ہی کرنا چاہیے اور متکلم کو بلا شبہ توبہ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن کلام اگر منظوم ہو اور منظوم کلام میں چونکہ مشترک الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو ایک سے زائد معنٰی پر دلالت کرتے ہیں تو ایسے میں کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے سے پہلے متکلم کی مراد پوچھ لینی چاہیے یہی بہتر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے مسعود بھائی کے اعتراض پر متکلم نے اپنی مراد پیش کردی مگر احباب مطمئن نہیں ہوئے ۔ ۔ ۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے جو سارا نے کہی کہ متکلم اپنی مراد ٹھیک طریقے سے پیش نہیں کر سکا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کے الفاظ ایسے بھی نہ تھے کہ جن پر براہ راست کلام کیا جاتا ۔ ۔ ۔ یہاں پر بیسیوں نامور شعراء کرام کا ایسا کلام پیش کیا جاسکتا ہے کہ جن کے کلام میں نہ تاویل کی گنجائش اور نہ ہی کوئی معقول توجیہ پیش کی جاسکتی ہے سوائے حسن ظن کے ۔ ۔ ۔ ۔
    اب یہاں ہی دیکھیئے کہ منصور حلاج کے نعرہ انا الحق کی مسعود بھائی نے خود سے ایک توجیہ پیش کی ہے جو کہ ایک حد تک معقول بھی ہے مگر سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی کہ جس نے مسعود بھائی کو منصور حلاج کے کلام میں ظاہر معنٰی مراد لینے سے روکا اور اس کی تاویل پر مجبور کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟'
    حالانکہ منصور حلاج کا کلام تو اپنے مفھوم میں بڑا ہی واضح ہے کہ انا الحق یعنی میں خدا ہوں ۔ ۔ ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ مسعود بھائی منصور حلاج کے واشگاف نعرہ مستانہ یعنی میں خدا ہوں کو منصور کا اپنے آپ کو خدا کہنا تسلیم نہیں کررہے بلکہ اسے خدا کا پالینا سے تعبیر کررہے ہیں حالانکہ انا الحق کے جو معنٰی مسعود بھائی نے مراد لیے ہیں وہ ان کو منصور نے خود بھی نہیں بتلائے ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسری طرف شاعر کی وضاحت کے باوجود مسعود بھائی وہاں پر رب کا پانا مراد نہیں لے رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    مسعود بھائی جس نقطہ پر آکر پھنس گئے ہیں وہ بہت ہی خطرناک ہے اور اس کا خود مسعود بھائی کو بھی ادراک نہیں ۔ ۔ ۔ ۔مسعود بھائی بار بار شہہ رگ سے قریب ہونے والی آیت کو پیش کرکے مفھوم یہ واضح کررہے ہیں کہ انسان خود اپنے اندر ہی سے خدا کو پاسکتا ہے اور پہچان سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ٹھیک بالکل ٹھیک خدا کے وجود کی دلالت اور پہچان بلا شبہ خود حضرت انسان کا اپنا وجود بھی ہے مگر فقط اسی پر اکتفاء نہیں ۔ ۔ ۔ ۔یہ ایک دلیل ہے خدا شناسی کی ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح اور جن معنوں میں دوسرے انسان کہ اندر رب کو نہیں تلاشا یا پایا جاسکتا بالکل اسی طرح اور انھی معنوں میں اپنے اندر بھی رب کو تلاشا یا پایا نہیں جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ باقی مسعود بھائی نے موضوع سے ہٹ کر کچھ باتیں کی ہیں یعنی شرک اور بیعت وغیرہ ان کا جواب دینا سر دست مقصود نہیں والسلام
    امید کرتا ہوں بات سمجھ میں آگئی ہوگئی آپ کا خیر اندیش عابد عنائت
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #17
      Re: Tou Dhoondh Khuda Insaano main!

      :)
      شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

      Comment


      • #18
        Re: Tou Dhoondh Khuda Insaano main!

        Originally posted by aabi2cool View Post
        متکلم اپنی مراد ٹھیک طریقے سے پیش نہیں کر سکا ۔ ۔ ۔ ۔
        yahan bhi yahe baat ho rahe hai :tasali:
        That's Enough...!!

        Comment


        • #19
          Re: Tou Dhoondh Khuda Insaano main!

          Originally posted by saraah View Post
          me yeh b tasleem krti hoon k shayer apnay markazi khyaal ko sahee rang me pesh nae kr saka
          aap nay bilkul theek kaha :thmbup:
          That's Enough...!!

          Comment


          • #20
            Re: Tou Dhoondh Khuda Insaano main!

            Mohtram Aabid Bhai jaan....

            Woh kya hai keh BARREY BARREY alfaaz sey aur RANGA RANG haroorf sey baat karney ka FUN har koi janta hai... Magar woh kya hai keh aap jaisa AALIM-E-DEEN jo Dr. Zakir Nayik sey ikhtilaaf rakhta ho, ya jo Dr. Israr Ahmed jaisey Aalim-e-Deen key liyey haqarat bhara lehja dikha sakta ho, woh huma-shuma ko kis khait ki mooli samajhta hai????

            Merey khiyaal mein insaan key liyey itna ilm kaafi hota hai jissey woh PACHAA sakey :)

            Mazeed koi bhi baat karna fazool hai, kyun keh hamarey haam JANIB'DARI ki itnihaa hoti hai - be blessed.
            tumharey bas mein agar ho to bhool jao mujhey
            tumhein bhulaney mein shayid mujhey zamana lagey

            Comment


            • #21
              Re: Tou Dhoondh Khuda Insaano main!

              Originally posted by aabi2cool View Post
              اسلام علیکم ڈئیر سسٹر گل
              جی آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ کے کسی کا بندہ بننا اور اور کسی کو خدا ماننا دو مختلف باتیں ہیں ۔ ۔ مگر بظاہر مختلف ہیں مگر حقیقتا ایک ہی ہیں ۔ ۔۔ لفظ بندہ فارسی زبان میں سے اردو میں آیا ہے اور یہ عربی لفظ عبد کا ترجمہ ہے اور عبد(یعنی بندہ) کے معنٰی ہیں (کسی کی) عبادت کرنے والا، پوجنے والا، پرستش کرنے والا اور عربی زبان میں ہی یہ لفظ بندہ دیگر معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے یعنی غلام، نوکر، مطیع، فرمانبردار وغیرہ
              علامہ کہ جس شعر کی بات ہورہی ہے اس میں علامہ نے لفظ بندہ دو جگہ استعمال کیا ہے اصل شعر کچھ یوں ہے ۔ ۔ ۔
              خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
              میں اس کا بندہ بنوں گا جسکو ، خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
              نوٹ:- بعض جگہوں پر خدا کے عاشق کی جگہ خدا کے بندے بھی لکھا ہوا ملتا ہے مگر بانگ درا میں اصل مقام پر خدا کے عاشق ہی ہے۔ ۔ ۔
              اب اس شعر کے دوسرے مصرعے میں علامہ جو یہ کہا ہے کہ "میں اس کا بندہ بنوں گا " یہاں پر" اس کا " کی ضمیر غیراللہ پر لوٹ رہی ہے یعنی کسی دوسرے انسان ہی کی طرف اشارہ ہے علامہ صاحب کا ۔ ۔ ۔ اگر اس شعر کو بھی اپنے ظاہر معنٰی میں لیا جائے تو علامہ صاحب پر شرک کا فتوٰی لگتا ہے کیونکہ بندہ اصل میں کہتے ہیں بندگی یعنی عبادت کرنے والے کو اور عبادت کی ہی فقط اللہ کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ یعنی معبود نہیں ۔ ۔۔ تو پھر علامہ نے کیون کہا کہ میں اس کا یعنی غیراللہ کا بندہ بنوں گا یعنی اگر شعر کو ظاہر معنٰی میں لیا جائے تو علامہ فر مارہے ہیں کہ میں اس انسان کی عبادت کروں گا کہ جو اللہ کے بندوں سے پیار کرنے والا ہو ۔ ۔ ۔ نعوذ باللہ من ذالک سب جانتے ہیں کہ شعر کے ظاہر معنٰی سے علامہ کی مراد نہیں ہے تو پھر لامحالہ لفظ بندہ کے دوسرے معنٰی اختیار
              کرنے پڑتے ہیں کہ جن سے شعر خوب نکھر کر واضح ہوجاتا ہے کہ علامہ اصل میں کہنا کیا چاہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔۔
              کہنا فقط یہ چاہتا ہوں کہ لوگ تو نثری کلام میں بھی قائل کے مرادی معنٰی کا لحاظ رکھتے ہیں چہ جائکہ نظم میں فقط ایک ہی معنٰی کو زبردستی کسی پر چسپاں کیا جائے جبکہ منظوم کلام کو سمجھنا بھی ہر کسی کے بس میں نہیں ۔ ۔ ۔ ۔۔
              اب اگر علامہ صاحب کے شعر کا ظاہر معنٰی مراد لیں تو علامہ صاحب نے ایک انسان کی عبادت کرکے اسے رب ہی مان لیا اور یوں کسی کا بندہ بن کر انھوں نے کسی میں خدا کو ہی ڈھونڈ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
              امید کرتا ہوں بات میری سسٹر کی سمجھ میں آگئی ہوگی والسلام

              :) :)

              Comment

              Working...
              X