Re: Tou Dhoondh Khuda Insaano main!
Originally posted by admin
View Post
مسعود بھائی کہ ساتھ انتہائی ادب کے ساتھ اختلاف کروں گا کہ بات بہت دور نکل گئی ۔ ۔ ۔ ۔
اگر چہ بات خود شاعر نے واضح کردی تھی پھر اس کے بعد سسٹر سارا نے بھی کمال وضاحت فرمائی مگر مسعود بھائی شاید پوائنٹ پک نہیں کر پائے ۔ ۔ ۔ ۔پہلی چیز یہ سمجھ لیجیئے کہ کلام میں اصل متکلم کے الفاظ ہی ہوتے ہیں اور اگر ایسی عبارت ہو جو کہ اپنے مفھوم میں بالکل واضح ہو یعنی اس کے الفاظ کے کوئی بھی معقول تاویل یا توجیہ نہ پیش کی جاکسے تو ایسا کلام اگر کسی بھی ذات یا ہستی پر حرف کا باعث بنے تو اسے تلف ہی کرنا چاہیے اور متکلم کو بلا شبہ توبہ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن کلام اگر منظوم ہو اور منظوم کلام میں چونکہ مشترک الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو ایک سے زائد معنٰی پر دلالت کرتے ہیں تو ایسے میں کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے سے پہلے متکلم کی مراد پوچھ لینی چاہیے یہی بہتر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے مسعود بھائی کے اعتراض پر متکلم نے اپنی مراد پیش کردی مگر احباب مطمئن نہیں ہوئے ۔ ۔ ۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے جو سارا نے کہی کہ متکلم اپنی مراد ٹھیک طریقے سے پیش نہیں کر سکا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کے الفاظ ایسے بھی نہ تھے کہ جن پر براہ راست کلام کیا جاتا ۔ ۔ ۔ یہاں پر بیسیوں نامور شعراء کرام کا ایسا کلام پیش کیا جاسکتا ہے کہ جن کے کلام میں نہ تاویل کی گنجائش اور نہ ہی کوئی معقول توجیہ پیش کی جاسکتی ہے سوائے حسن ظن کے ۔ ۔ ۔ ۔
اب یہاں ہی دیکھیئے کہ منصور حلاج کے نعرہ انا الحق کی مسعود بھائی نے خود سے ایک توجیہ پیش کی ہے جو کہ ایک حد تک معقول بھی ہے مگر سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی کہ جس نے مسعود بھائی کو منصور حلاج کے کلام میں ظاہر معنٰی مراد لینے سے روکا اور اس کی تاویل پر مجبور کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟'
حالانکہ منصور حلاج کا کلام تو اپنے مفھوم میں بڑا ہی واضح ہے کہ انا الحق یعنی میں خدا ہوں ۔ ۔ ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ مسعود بھائی منصور حلاج کے واشگاف نعرہ مستانہ یعنی میں خدا ہوں کو منصور کا اپنے آپ کو خدا کہنا تسلیم نہیں کررہے بلکہ اسے خدا کا پالینا سے تعبیر کررہے ہیں حالانکہ انا الحق کے جو معنٰی مسعود بھائی نے مراد لیے ہیں وہ ان کو منصور نے خود بھی نہیں بتلائے ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسری طرف شاعر کی وضاحت کے باوجود مسعود بھائی وہاں پر رب کا پانا مراد نہیں لے رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مسعود بھائی جس نقطہ پر آکر پھنس گئے ہیں وہ بہت ہی خطرناک ہے اور اس کا خود مسعود بھائی کو بھی ادراک نہیں ۔ ۔ ۔ ۔مسعود بھائی بار بار شہہ رگ سے قریب ہونے والی آیت کو پیش کرکے مفھوم یہ واضح کررہے ہیں کہ انسان خود اپنے اندر ہی سے خدا کو پاسکتا ہے اور پہچان سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ٹھیک بالکل ٹھیک خدا کے وجود کی دلالت اور پہچان بلا شبہ خود حضرت انسان کا اپنا وجود بھی ہے مگر فقط اسی پر اکتفاء نہیں ۔ ۔ ۔ ۔یہ ایک دلیل ہے خدا شناسی کی ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح اور جن معنوں میں دوسرے انسان کہ اندر رب کو نہیں تلاشا یا پایا جاسکتا بالکل اسی طرح اور انھی معنوں میں اپنے اندر بھی رب کو تلاشا یا پایا نہیں جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ باقی مسعود بھائی نے موضوع سے ہٹ کر کچھ باتیں کی ہیں یعنی شرک اور بیعت وغیرہ ان کا جواب دینا سر دست مقصود نہیں والسلام
امید کرتا ہوں بات سمجھ میں آگئی ہوگئی آپ کا خیر اندیش عابد عنائت
اگر چہ بات خود شاعر نے واضح کردی تھی پھر اس کے بعد سسٹر سارا نے بھی کمال وضاحت فرمائی مگر مسعود بھائی شاید پوائنٹ پک نہیں کر پائے ۔ ۔ ۔ ۔پہلی چیز یہ سمجھ لیجیئے کہ کلام میں اصل متکلم کے الفاظ ہی ہوتے ہیں اور اگر ایسی عبارت ہو جو کہ اپنے مفھوم میں بالکل واضح ہو یعنی اس کے الفاظ کے کوئی بھی معقول تاویل یا توجیہ نہ پیش کی جاکسے تو ایسا کلام اگر کسی بھی ذات یا ہستی پر حرف کا باعث بنے تو اسے تلف ہی کرنا چاہیے اور متکلم کو بلا شبہ توبہ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن کلام اگر منظوم ہو اور منظوم کلام میں چونکہ مشترک الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو ایک سے زائد معنٰی پر دلالت کرتے ہیں تو ایسے میں کسی بھی قسم کا قدم اٹھانے سے پہلے متکلم کی مراد پوچھ لینی چاہیے یہی بہتر ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہاں بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے مسعود بھائی کے اعتراض پر متکلم نے اپنی مراد پیش کردی مگر احباب مطمئن نہیں ہوئے ۔ ۔ ۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے جو سارا نے کہی کہ متکلم اپنی مراد ٹھیک طریقے سے پیش نہیں کر سکا ۔ ۔ ۔ ۔ مگر اس کے الفاظ ایسے بھی نہ تھے کہ جن پر براہ راست کلام کیا جاتا ۔ ۔ ۔ یہاں پر بیسیوں نامور شعراء کرام کا ایسا کلام پیش کیا جاسکتا ہے کہ جن کے کلام میں نہ تاویل کی گنجائش اور نہ ہی کوئی معقول توجیہ پیش کی جاسکتی ہے سوائے حسن ظن کے ۔ ۔ ۔ ۔
اب یہاں ہی دیکھیئے کہ منصور حلاج کے نعرہ انا الحق کی مسعود بھائی نے خود سے ایک توجیہ پیش کی ہے جو کہ ایک حد تک معقول بھی ہے مگر سوال یہاں پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی کہ جس نے مسعود بھائی کو منصور حلاج کے کلام میں ظاہر معنٰی مراد لینے سے روکا اور اس کی تاویل پر مجبور کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟'
حالانکہ منصور حلاج کا کلام تو اپنے مفھوم میں بڑا ہی واضح ہے کہ انا الحق یعنی میں خدا ہوں ۔ ۔ ۔اب مسئلہ یہ ہے کہ مسعود بھائی منصور حلاج کے واشگاف نعرہ مستانہ یعنی میں خدا ہوں کو منصور کا اپنے آپ کو خدا کہنا تسلیم نہیں کررہے بلکہ اسے خدا کا پالینا سے تعبیر کررہے ہیں حالانکہ انا الحق کے جو معنٰی مسعود بھائی نے مراد لیے ہیں وہ ان کو منصور نے خود بھی نہیں بتلائے ۔ ۔ ۔ جبکہ دوسری طرف شاعر کی وضاحت کے باوجود مسعود بھائی وہاں پر رب کا پانا مراد نہیں لے رہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مسعود بھائی جس نقطہ پر آکر پھنس گئے ہیں وہ بہت ہی خطرناک ہے اور اس کا خود مسعود بھائی کو بھی ادراک نہیں ۔ ۔ ۔ ۔مسعود بھائی بار بار شہہ رگ سے قریب ہونے والی آیت کو پیش کرکے مفھوم یہ واضح کررہے ہیں کہ انسان خود اپنے اندر ہی سے خدا کو پاسکتا ہے اور پہچان سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ٹھیک بالکل ٹھیک خدا کے وجود کی دلالت اور پہچان بلا شبہ خود حضرت انسان کا اپنا وجود بھی ہے مگر فقط اسی پر اکتفاء نہیں ۔ ۔ ۔ ۔یہ ایک دلیل ہے خدا شناسی کی ۔ ۔ ۔ ۔ جس طرح اور جن معنوں میں دوسرے انسان کہ اندر رب کو نہیں تلاشا یا پایا جاسکتا بالکل اسی طرح اور انھی معنوں میں اپنے اندر بھی رب کو تلاشا یا پایا نہیں جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ باقی مسعود بھائی نے موضوع سے ہٹ کر کچھ باتیں کی ہیں یعنی شرک اور بیعت وغیرہ ان کا جواب دینا سر دست مقصود نہیں والسلام
امید کرتا ہوں بات سمجھ میں آگئی ہوگئی آپ کا خیر اندیش عابد عنائت
Comment