Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

    ..


    اقبال کو دو واسطوں سے وحدت الوجود ہا یمہ اوست کا نظریہ ذہنی اور ذوقی میراث میں ملا تھا۔۔۔ایک تو وہ برہمن نژاد تھے اور سریان کا تصور ان کے اباو اجداد کے ذہن و عقل میں نفوذ کر چکا تھا اور دسرے ان کے والد ایک صاحب کشف و حال صوفی تھے جن کے احوال و کرامات کا ذکر اقبال اپنے دوستوں سے کای کرتے تھے عطیہ بیگم ان کے متصوفانہ رجحناات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تالیف ‘‘ اقبال ’’ میں لکھتی ہیں
    ان کی متصوفانہ طبع کی توضیح کے لیے ایک واقعہ پیش کروں گی جو اقبال کو لڑکپن میں پیش ایا اور جس نے اقبال کے انداز نظر پر گہرا اثر ڈالا تھا۔۔اقبال کی زندگی کے نفسیاتی احوال پر ان کے والد کی تربیت کا اثر تھا متصوفانہ علم کی تحصیل خاندان میں ومروثی تھی اوعر اس مقصد کے لیے ان کے والد نے کئی مہینے ایک عارف کے ساتھ تخلئے میں بسر کئے تھے۔۔ان کے والد نہ اپنا یہ علم اپنے بیٹے اقبال کو دی جو اس وقت اعلی علوم کی تحصیل کے لیے تیار نہیں تھے لیکن بیچ موجود تھا جسے اقبال نے خود سینچا۔۔

    اس کے بعد عطیہ بیگم نے اقبال کے والد کی کرام کا واقعہ بیان کیا ہے جسے خود اقبال نے انہیں سنایا تھا۔۔ ان حقائق کے پیش نظر ہمیں تعجب محسوس نیں ہوتا جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں اقبال بقول میاں شریف (جمالیات اقبال کی تشکیل) میں فرماتے ہیں اقبال صرف نوفلاطونی ہی نہ تھے بلکہ وحدت الوجود پر کاملا یقین رکھتے تھے اس زمانےمیں فلاطینیوس کی طرح اقبال کو فطرت کے مناظر میں ہر کہیں محبوب ازلی کے جمال آرا کی تجلیاں دکھائی دیتی تھیں۔۔فلاطینیوس نے ذات محض کا تصور حسن ا زل کی صورت میں کیا تھا۔۔ اس کا عقیدہ تھا کہ محبوب حقیقی کے حسن و جمال کے جلوے دنیا کی تمام اشیا میں پرتو فگن ہیں جنیں دیکھ دیکھ طالبان صادق اور عشاق ھقیئقی کے دل تڑپ تڑپ جاے ہیں۔۔اقبال نے اس دور کی نظموں میں بڑے ولولہ انگیز اور دلاویز پیرائے میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔۔
    جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ نے۔۔
    خورشید میں قمر میں تارروں میں انجمن میں
    صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا
    شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں
    جس کی چمک ہے پیدا جس کی مہک ہویدا
    شبنمم کے موتیوں میں پھولوں کے پیراہن
    صحرا کو بسایا ہے جس نے سکوت بن کر
    ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں

    ۔۔۔کی گود میں بلی دیکھ کر’’ فرماتے ہیں

    خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
    صورت دل ہے نہ چیز کے باطن میں مکیں
    شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
    روح خورشید ہے خون رگ مہتاب میں
    دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
    نور وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
    کہیں ساماں مسرت کہیں ساز غم ہے
    کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے

    جگنو میں کہتے ہیں


    حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
    انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
    یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
    واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
    انداز گفتگو نے دھوکے دئے ہیں ورنہ
    نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی مہک ہے
    جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول کی مہک ہے




    جاری ہے

    :(

    Comment


    • #17
      Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

      ..


      فلاطینوس کا عیقدہ تھا ہ انسان کی روح اپنے مصدر سے جدا ہو کر ظلمت کدہ اب و گل میں ھیران و سرگردہ ہے اور محبوب ازلی کے فراق میں نالہ و فریاد کرتی رہتی ہے۔۔۔اگر وہ ریاضت اور مجاہدے سے کام لے تو بقول اس کے دوبارہ مجرد کا اتحاد مجرد کے ساتھ عمل میں اسکتا ہے۔۔مولانا روم نے مثنوی مولانا روم میں یہی تصور پیش کیا ہے
      ہر کسے کو دور مانداز اصل خویش
      باز جوید وروزگار باگل است
      جز ہارا روئے ہا سوئے کل است
      بلبلاں راعشق بازی باگل است
      انچہ از در یا بدر می رود
      از ہمانجا کامد آنجامی رود


      اقبال نے شمع میں انہیں خیالات کی تفسیر و تشریخ کی ہے

      صبح ازل سے جو حسن ہو دلستان عشق
      اواز کن ہوئی تپش اموز جان عشق
      یہ حکم تھا کہ گلشن کن کی بہار دیکھ
      اک آنکھ لے کے خواب پریشان ہزاردییکھ
      مجھ سے خبر نہ پوچھ حجاب وجود کی
      شام فراق صبح تھی میری نمود کی
      دو دن گئے کہ قید سے میں اشنا نہ تھا
      زیب درخت طور میرا آشیانہ تھا
      قیدی ہوں اور قفس کو چمن جانتا ہوں
      غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں
      ۔۔۔





      یہ سلسہ زمان و مکان کا کمند ہے
      طوق گلوئے حسن تماشا پسند ہے
      منزل کا اشتیاق ہے گم کردہ راہ ہوں
      اسے شمع میں اسیر فریب نگاہ ہوں
      صیاد اپ حلقہ دام ستم بھی اپ
      بام حرم بھی طائر حرم بھی اپ
      میں حسن ہوں کہ عشق سراپا گداز ہوں
      کھلتا نہیں کہ ناز ہوں یا نیاز ہوں
      ہاں اشنائے لب نہ ہو راز کہن کہیں
      پھر چھڑ نہ جائے قصہ دارو رسن کہیں




      اخری اشعار میں وحدت الوجود کی پرجوش ترجامنی کرتے ہوئے درا و رسن سے بال بال بچ جاتے یہں جب سوامی رام تیرتھ نے دریائے گنگا میں ڈاب کر خود کشی کر لی تو اقبال ن کے اس اقدام سے بڑے متاثر ہوئے اور انہی کے نام سے ایک نظم لکھی جس میں فنا فی اللہ کا وجودی اور ویدانتی تصور پیش کیا


      ہم بغل دریا سے ہے اے قطرہ بیتاب تو
      پہلے گوہر تھا بنا اب گوہر نایاب تو
      آ ہ کھولا کس ادا سے تو نے راز رنگ و بو
      میں ابھی تک ہوں اسیر امتیاز رنگ و بو
      مٹ کے غوغا زندگی کا شورش محشر بنا
      یہ شرارہ بجھ کے آتش خانہ آزر بنا
      نفی ہستی اک کرشمہ ہے دل آگاہ کا
      لا کے دریا میں نہاں موتی الہِ اللہ کا



      اس زمانے میں وہ اثبات خودی کے بجائے نفی ہستی کے قائل تھے جو وحدت الووجد نوفلاطونیت اور ویدانیت کا ایک بنیادی تصور ہے۔۔اس نظم میں وہ خاس طور پر سریان کی آرایائی روایت سے متاثر دکھائی دیتے ہیں اور اہنکار یا خودی اور پردہ ہستی کو راہ سلوک و طریقت میں حائل سمجھتے ہیں۔۔

      منصور حلاج کا مشہور شعر ہے

      بینی و بینک انی لنا عنی۔۔۔۔ ارفع بلطفک انی من البین

      میرے اور تیرے درمیان صرف ’’ میں ‘‘ حائل ہو کر جھگڑ رہا ہے اپنے لطف و کرم سے اس ’’ میں ‘‘ کو درمیان سے نکال دے

      حافظ شیرزای اس مضمون کو یوں ادا کرتے ہیں


      نقاب و پردہ ندارد جمال دلبر ِ م،ن
      تو خود حجاب خودی ھافظ از میاں بر خیز

      اقبال نے تو گویا اسی شعر کا ترجمہ کر دیا

      میری ہستی ہی تھی خؤد ہی میری نظر کا پردہ
      اٹھ گیا بزم سے میں پردہ محفل ہو کر






      جاری ہے
      :(

      Comment


      • #18
        Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

        وحدت الوجود کی الہیات سے آفاقیت اور وسعت مشب کی اخلاقی قدریں وابستہ ہیں۔۔صوفی یا ویدانتی یہ جانتا ہے کہ ہر شے کا مصدر ایک ہی ذات مطلق سے ہوا ہے جو اپنے آپ کو مذہبی عصبیت اور فرقہ وارانہ جانب داری سے بالاتر سمجھنے ل؛گتا ہے۔۔۔جب اس کا یہ عقیدہ یہ ہو گا کہ کائنات کے تمام مظاہر میں محبوب حقیقی کا حسن و جمال جلوہ فگن ہے تو وہ لازما کسے انسان سے نفرت نہیں کرے گا اور عناد رکھنے کو آداب عشق و محبت کے منافی خیال کرے گا ۔۔یہی وجہ ہے کہ وجودی صوفیہ نے ہمیشہ خلق روادری اور حسن سلوک کو اپنا شعار بنایا ہے۔۔ابن عربی اس انسانیت پرور نقطہ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں

        لقد کنت قبل انکر صاحبی۔۔ ازالم یکن دینی اینہ وانی
        وقد صار قلبی قابلا کل صورۃ فمر عی لغزلان و دیر لرھبان
        وبیت لیزان و کعبۃ قاصدا وا ولاح تواراۃ و مصحف قران
        ادین بدین الحب انہی جو جھت۔۔رکائی فالجب دینی و ایمانی

        اج کے دن سے پہلے میرا یہ حال تھا کہ جس کا ساتھ دین مجھ سے نہ ملتا ۔۔اس کا انکار کرتا اور اسے اجنبی سمجھتا۔۔لیکن اب میرا دل ہر صورت کو قبول کرتا ہے۔۔غزالوں کی اور دیر راہبوں کے لیے، آگ پوجنے والوں کا اتش کدہ اور حج کرنے والوں کا کعبہ تورایت کی الواح اور قران کا صحیفہ۔۔اب مذہب عشق کا پرستار ہوں ۔۔عشق کا قافلہ جدھر بھی مجھے لے جائے میرا دین بھی عشق ہے اور ایمان بھی عشق ہے۔۔



        مولانا روم بھی عشق کا ادیان کا جوہر سمجھتے تھے۔۔وہ کہتے ہیں کہ جب دل میں عشق حقیقی کی تڑپ پیدا ہوجائے تو ادایان و مذاہب کے اختلافات باطل ہو جاتے ہیں کیونکہ بقول ان کے
        مزہب عشق از ہمہ دیں ہا جدا است

        اقبال اس دور میں وحدت وجود کے قائل تھے اس لیے ابن عربی اور رومی کی طرح خدمت خلق اور ہمدردی انسانی کو حسن اخلاق کا جوہر سمجھتے تھے اور اس بات کی آرزو مند تھے کہ تمام نوع انسان کو اپنی قوم اور سار جہان کو اپنا وچطن سمجھنے لگیں اپنی نظم ’’ آفتاب صبح ’’ میں اس انداز نظر کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے


        بستہ رنگ خصوصیت نہ ہو میری زباں
        نوع انسان قوم ہو میری وطن ہو میرا جہاں
        دیدہ باطن پہ راز نظم قدرت ہو عیاں
        ہو شنا سائے فلک شمع تخیل کا دھواں
        عقدہ اضداد کی کاوش نہ تڑپائے مجھے
        حسن عشق انگیز ہر شے میں نظر ائے مجھے


        صدمی آجائے ہوا سے گل کی پتی کو اگر
        اشک بن کر میری آںکھوں سے ٹپک جائے اثر
        دل میں ہو سوز محبت کا وہ چھوٹا سا شرر
        نور سے جسکے ملے راز حقیقت کی خبر
        شاہد قدرت کا آئینہ ہو دل میرا
        سر میں جز ہمدردی انساں کوئی سودا نہ ہو





        وجودی صوفیہ کی الہیات سے اختلاف کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کای جاسکتا کہ انہوں نے رواقئین کی طرح صدیوں تک انسانیت عالیہ کے تصور کی پاسبانی کی ہے وہ ملک و ملت اور رنگ و زبان کے فرق کو روا نہیں رکھتے اور صلح کل کی دعوت دیتے ہیں۔۔بہر کیف یورہپ کے دوران قیام میں بھی اقبال ایک مدت تک وحدت الود کے قائل رہے ہیں ان ے استاد میکٹے گارٹ کا ایک خط محفوظ ہے۔۔



        جاری ہے
        :(

        Comment


        • #19
          Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

          ۔بہر کیف یورپ کے دوران قیام میں بھی اقبال ایک مدت تک وحدت الود کے قائل رہے ہیں ان ے استاد میکٹے گارٹ کا ایک خط محفوظ ہے۔۔ جس میں انہو ں نے اقبال کو لکھا تھا کہ ایام طالب علمی تو اپ وحدت الوجود کے قائل تھے اور اب اس کے مخالفت کرنے لگے ہیں؟ عطیہ بیگم اپنی تالیق ’’ اقبال ’’ میں لکھتی ہیں کہ اقبال جب انگلستان میں تحصیل علم کے لیے مقیم تھے تو مجلسوں میں اکثر حافظ شیزازی کے اشعار ذوق و شوق سے پڑھا کرتے تےے اُن کے الفاظ ہیں :
          حافظ شیزازی کی بات چک نکلی مجھے اس عظیم شاعر سے دلچسپی تھی اس لئے میں نے ان کے چند اشعار حسب نوقع پڑھے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اقبال بھی ھافظ شیرازی کے بڑے مداح تھے انہوں نے کہا ’” جب مجھ پر حافظ شیرازی کی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس کی روح میرے اندت حلول کر جاتی ہے اور میرج شخصیت حافظ شیرازی میں کھو جاتی ہے اور میں خود حافظ شیرازی ب ن جاتا ہوں۔۔۔مجھے محسوس ہوا کہ اقبال فارسی شعرا میں سب سے زیادہ حافظ شیرازی کے قائل تھے ‘‘‘۔۔

          عطیہ بیگم نے اس کتاب میں ایک واقعہ ایسا بھی بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نہ صرف نظریاتی لحاظ سے وحدت الوجود کے قائل تھے بلکہ ایک صاحب حال صوفی بھی تھے وہ لکھتی ہیں کہ’’
          ۔’’ 22 اگست 1907 کے دن ہائیڈل برگ کے عملی اور ھقیقت پسندانہ ماحول میں تصوف کی فضا پیدا ہو گئی اور یونیورسٹی کے پ“روفیسر حیران تھے کہ اقبال کو کسیے اس حالت استغراق و ازخود گرفتگی سے واپس ہوش میں لایں جس میں وہ گزشتہ رات سے کھوئے بیٹھے ہیں۔۔فراو پروفیسر سینے شال اور فرادلین وجے ناسٹ نے جب اقبال کو ایک جامدیت کی طرح بے حس و حرکت بیٹھے سامنے کی کھلی کتاب میں نظریں گاڑے دیکھا تو ان ک اوسان بھی خطا ہو گئے۔۔اقبال اپنے گرد و پیش سے قطعی بے خبر دکھائی دیتے تھے تما لوگ سیر کو جانے کے لیے اکھٹے ہوئے تھے اقبال کو اس حالت میں بیٹھا دیکھ کر مہبوت ہو گئے۔۔’’۔

          معلوم ہوتا ہے کہ ’’ مابعد الطبعیات ایران ’’ لکھنے کے بعد اقبال کے خیالات و عقائد میں نمایاں تغئیر رونما ہونے لگا تھا۔۔یہ تغئیر کیوں اور کیسے رونما ہوا اس کے متعلق شواہد موجود نہیں۔۔یہ البتہ یقنی ہے کہ قیام یورپ کے اواخر میں اقبال اقوام و ملل کی ہمہہ گیر پسماندگی اور سیاسی زوں حالی کے اسباب و عوامل میں اکثر غور وعوض کیا کرتے تھے انہیں ایام میں جرمن مفکر فلاسفہ بلخصوص فٹشے اوت نتشے کا بالاستعیاب مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔۔فشٹے کے نظریات میں ان کے گہری دلچسپی کی وجہ یہ تھی کہ جب نپولین نے جنگ جینا میں جرمنوں کی متحدہ فوج کا شکست فاش دے کر ان کی کمر توڑ دی تو فشٹے نے ہم وطنوں میں جوش کردار اور جذبہ عمل بیدار کرنے کے پانے مشہور ’” خطبات ’’ لکھے تھےے۔۔۔اقبال نے بھی فشٹے کی تتبع میں اقوام اسلامیہ کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کا عزم صمیم کیا۔۔چنانچہ اقبال کا ںطریہ خودی فشٹے سے ہی مستعار ہے۔۔اس کے بعد اقبال نے اپنی شاعری کا تجدید ملت کے لیے وقف کر دیا۔۔ انہوں نے مابع الطبعیات ایران خالصتا فلسفیانہ رنگ میں لکھی تھی لیکن اس کے بنعد ان کے افکار پر متکلمانہ رنگ غالب آگیا۔۔انہوں نے تاریخ اسلام کا مطالعہ اپنے نئے زاویہ نگاہ سے کیا تو اس نتیجے پہ پہنچے کہ نظریہ وحدت الوجود جسے وہ عجمی تصوف کا نام دینے لگے تھے، مسلمانوں کے سیاسی اور عسکری تنزل کا واحد ذمے دار ہے۔۔ان کے خیال کے مطابق اس کی اشاعت نے مسلمانوں میں زاویہ نشینی، رہبانیت، اور نفی ہستی کے خیالات کو رواج دیا تھا۔۔اگر اقبال ابن خلدون کی طرح تاریخی عمل کا دقت نگاہ سے جائزہ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ مسلمانوں کے زوال کے متعدد سیاسی معاشرتی عسکری اور اقتصادی اسباب بھی تھے۔۔صوفیہ کے حلقوں میں وحدت الووجد کی اشاعت کو زیادہ سے ز یادہ ایک علامت سمجھا جا سکتا ہے سببب قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔بہرحال اقبال نے وجودی صوفیہ اور ان کے افکار و آرا کے خلاف پر جوش جہاد کا اغاز کیا ابن عربی کی تعلیمات کو کفر و زندقہ قرار دیا اور ھافظ شیرازی کو ’’ فقیہہ ملت میخوارگاں ’’ کا لقب دے کر کہا۔۔




          جاری ہے
          :(

          Comment


          • #20
            Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

            صوفیہ کے حلقوں میں وحدت الووجد کی اشاعت کو زیادہ سے ز یادہ ایک علامت سمجھا جا سکتا ہے سببب قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔بہرحال اقبال نے وجودی صوفیہ اور ان کے افکار و آرا کے خلاف پر جوش جہاد کا اغاز کیا ابن عربی کی تعلیمات کو کفر و زندقہ قرار دیا اور ھافظ شیرازی کو ’’ فقیہہ ملت میخوارگاں ’’ کا لقب دے کر کہا۔۔
            ہوشیار از ھافظ صہبا گسار
            جامش از زہر اجل سرمایہ دار
            رہن ساقی خرقہ پرہیز او
            مے علاج ہول رستا خیز
            نیست غیر از از باد در بازار
            ازدوجام آشفہ شدد او
            چوں خراب از بادہ گلگلوں شود
            مایہ دار قسمت قاررں شود



            ھافظ شیروزی کےے ساتھ یونانی فلسفی افلاطون پر بھی طنز و تعریض کا اغاز کیا اور اسے گوسفند قدیم کا لقب بخشا

            راہب اول فلاطون حکیم
            از گروہ گو سفندان قدیم
            گوسفند در لباس آدم است
            حکم او بر جان صوفی محکم است

            اقبال نواشراقیت کے بانی فلاطینویس پر طنز کرتے تو اک حد تک اس کا جواز بھی پیدا ہو جاتا لیکن افلاطون یونانی گوسفند قدیم قرار دینا نصاف سے بعید ہے افلاطون کے افکار میں بے شک کہیں کہیں کشف و عرفان کے عناصر موجود ہیں لیکن اس کا نظریہ امثال خالص عقلی اور منطقی ہے کے علاوہ افلاطون صاحب عزیمت تھا اسے سائرا کیوز میں اصلا حات نافذ کرنے کی کوشش کی جس پر وہاں کا جابر حاکم اس کے خلاف ہوگیا اور اسے قزاقوں کے ہاتھ غلام بنا کر بیچ دیا۔۔



            مقام حیرت کہ اقبال نے تمام وجودی صوفیہ و فلاسفہ کی سخت مخلافت کی لیکن مولانا جلال الدین رومی کو جو وحدت الوجود کے مشہور اور ممتاز ترجمان سمجھے جاتے ہیں نہ صرف مسشنیٰ قرار دیا بلکہ ان کو اپنا پیر و مرشد بھی تسلیم کر لیا اور خوہ مرید ہندی کے نام سے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔۔۔۔اسرار خودی میں کہتے ہیں



            باز بر خوانم ز فیض پیر روم
            دفتر سربستہ اسرار علوم
            جان او از شعلہ ہا سرمایہ دار
            من فروغ یک نفس مثل شرار
            شمع شبخوں ریخت بر پروانہ ام
            بادہ یورش کردہ بر پیمانہ ام
            پیر رومی خاک را اکسیر کرد
            از غبار جلوہ ہا تعمیر کرد



            جیسا کے اوپر ذکر ہو چکا مولانا روم ، مولانا صدر الدین قونوی کے واسطے سے شیخ اکبر ابن عربی سے مستفید و متاثر ہوئے تما مورخئین و شارعین کا اس بات پہ اتفاق ہے کہ مولانا روم وحدت الوجود کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس کے پر جوش مبلغ بھی تھے۔۔فلاطینیوس اور ابن عربی کی طرح ان کی الہیات کا بنیادی تصور یہ ہے کہ ارواح انسانی ماخد حقیقی سے صادر ہوئی ہے اور اسی کی طرف بازگشت کے لیے جہد و جہد کرنا انسانی کوششوں کا مقصور و منتہی ہے مولانا روم کی مثنوی کا اغاز اس عقیدے کی ترجمانی سے ہوتا ہے ابتدائی اشعار میں وہ نے کو انسانی روح کا علامتی مظہر قرار دیتے ہیں جو اپنے نیستاں یا عالم لاہوت کی جدائی میں نالہ کناں ہے اس کے ساتھ مولنا روم نفی ہستی پر زور دیتے ہیں

            کہتے ہیں

            جاری ہے
            :(

            Comment


            • #21
              Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

              مولانا روم کی مثنوی کا اغاز اس عقیدے کی ترجمانی سے ہوتا ہے ابتدائی اشعار میں وہ نے کو انسانی روح کا علامتی مظہر قرار دیتے ہیں جو اپنے نیستاں یا عالم لاہوت کی جدائی میں نالہ کناں ہے اس کے ساتھ مولنا روم نفی ہستی پر زور دیتے ہیں

              کہتے ہیں

              چیست توحید خدا آموختن خوشین راپیش واحد سو ختن
              گرہمی خواہی کہ بفروزی چو روز۔۔۔ہستی خود ہم چو شمع شب بسوز+
              زانکہ ہستی سخت مستی آدرد عقل ازسر، شرم از ول می رود
              ہر کہ از ہستی خودف منقود منتہایئے کار او محنمود شد


              اور نوافلاطونیوں کی طرح سریان کے قائل ہیں

              در دو عالم غیر یزداں نیست کس


              ایک جگہ لکھتے ہیں

              جملہ معشوق است و عاشق پردہ۔۔زندہ معشوق است و عاشق مردہ

              اس شعر کی شرع میں علامہ عبدالعلی بحر العلوم میں لکھتے ہیں

              تمام موجوداتر عین معشوق ہیں جو ذات حق ہے اور عاشق جو تعینات اور تشصات میں پائا جاتا ہے ،محض اک پردہ ہے اگر یہ پردہ اٹھ جائے تو تمام عالم نابود ہو جائے اسی طرح معشوق یعنی ذات حق زندہ جاوید ہے اور عاشق مثل مرد ہ ہے کیونکہ عاشق کا وجود اس کی حیات و موت خدا ہی کی ایک شان ہے اگر وہ اس شان کے بغیر جلوہ گر ہونا چاہیے تو تو تمام عالم نیت و نابود ہو جائے۔۔


              بحر العلوم کے علاوہ محمد رضا احمد حسن کانپوری اور محمد نذیر عرشی نے مثونی مولانا روم کی شرع میں مولانا کے عقیدہ وحدت الوجود کی جابجا تشریح کی ہے دوسرے علما بھی مولانا روم کو وحدت الوجود کا ترجمان تسلیم کرتے ہیں مولوی شبلی نعمانی سوانح مولانا روم میں لکھتے ہیں

              وحدت الوجود کا مسئلہ بظاہر غلط معلوم ہوتا ہے اور اہل نظر کے نذدیک تو اس کا قائل کا وہی صلہ ہے جو منصور کو دار پر ملا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وحدت وجود کے بغیر چارہ نہیں۔۔

              اس کے بعد وحدت الوجود کے ثبوت میں دلائل دے کر فرماتے ہیں۔۔


              مولانا روم وحدت الوجود کے قائل ہیں۔۔ان کے نذدیک تمام عالم اس ہستی مطلق کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں اس بنا پر صرف ایک ذات واحد موجود ہے اور تعدد جو محسوس ہوتا ہے محض اعتباری ہے


              خلیفیہ عبالحکیم مابعد الطبعیات رومی میں رقم طراز ہیں


              جاری ہے
              :(

              Comment

              Working...
              X