Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود
..
اقبال کو دو واسطوں سے وحدت الوجود ہا یمہ اوست کا نظریہ ذہنی اور ذوقی میراث میں ملا تھا۔۔۔ایک تو وہ برہمن نژاد تھے اور سریان کا تصور ان کے اباو اجداد کے ذہن و عقل میں نفوذ کر چکا تھا اور دسرے ان کے والد ایک صاحب کشف و حال صوفی تھے جن کے احوال و کرامات کا ذکر اقبال اپنے دوستوں سے کای کرتے تھے عطیہ بیگم ان کے متصوفانہ رجحناات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تالیف ‘‘ اقبال ’’ میں لکھتی ہیں
ان کی متصوفانہ طبع کی توضیح کے لیے ایک واقعہ پیش کروں گی جو اقبال کو لڑکپن میں پیش ایا اور جس نے اقبال کے انداز نظر پر گہرا اثر ڈالا تھا۔۔اقبال کی زندگی کے نفسیاتی احوال پر ان کے والد کی تربیت کا اثر تھا متصوفانہ علم کی تحصیل خاندان میں ومروثی تھی اوعر اس مقصد کے لیے ان کے والد نے کئی مہینے ایک عارف کے ساتھ تخلئے میں بسر کئے تھے۔۔ان کے والد نہ اپنا یہ علم اپنے بیٹے اقبال کو دی جو اس وقت اعلی علوم کی تحصیل کے لیے تیار نہیں تھے لیکن بیچ موجود تھا جسے اقبال نے خود سینچا۔۔
اس کے بعد عطیہ بیگم نے اقبال کے والد کی کرام کا واقعہ بیان کیا ہے جسے خود اقبال نے انہیں سنایا تھا۔۔ ان حقائق کے پیش نظر ہمیں تعجب محسوس نیں ہوتا جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں اقبال بقول میاں شریف (جمالیات اقبال کی تشکیل) میں فرماتے ہیں اقبال صرف نوفلاطونی ہی نہ تھے بلکہ وحدت الوجود پر کاملا یقین رکھتے تھے اس زمانےمیں فلاطینیوس کی طرح اقبال کو فطرت کے مناظر میں ہر کہیں محبوب ازلی کے جمال آرا کی تجلیاں دکھائی دیتی تھیں۔۔فلاطینیوس نے ذات محض کا تصور حسن ا زل کی صورت میں کیا تھا۔۔ اس کا عقیدہ تھا کہ محبوب حقیقی کے حسن و جمال کے جلوے دنیا کی تمام اشیا میں پرتو فگن ہیں جنیں دیکھ دیکھ طالبان صادق اور عشاق ھقیئقی کے دل تڑپ تڑپ جاے ہیں۔۔اقبال نے اس دور کی نظموں میں بڑے ولولہ انگیز اور دلاویز پیرائے میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔۔
جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ نے۔۔
خورشید میں قمر میں تارروں میں انجمن میں
صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا
شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں
جس کی چمک ہے پیدا جس کی مہک ہویدا
شبنمم کے موتیوں میں پھولوں کے پیراہن
صحرا کو بسایا ہے جس نے سکوت بن کر
ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں
۔۔۔کی گود میں بلی دیکھ کر’’ فرماتے ہیں
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے نہ چیز کے باطن میں مکیں
شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب میں
دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
کہیں ساماں مسرت کہیں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے
جگنو میں کہتے ہیں
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی مہک ہے
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول کی مہک ہے
جاری ہے
اقبال کو دو واسطوں سے وحدت الوجود ہا یمہ اوست کا نظریہ ذہنی اور ذوقی میراث میں ملا تھا۔۔۔ایک تو وہ برہمن نژاد تھے اور سریان کا تصور ان کے اباو اجداد کے ذہن و عقل میں نفوذ کر چکا تھا اور دسرے ان کے والد ایک صاحب کشف و حال صوفی تھے جن کے احوال و کرامات کا ذکر اقبال اپنے دوستوں سے کای کرتے تھے عطیہ بیگم ان کے متصوفانہ رجحناات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تالیف ‘‘ اقبال ’’ میں لکھتی ہیں
ان کی متصوفانہ طبع کی توضیح کے لیے ایک واقعہ پیش کروں گی جو اقبال کو لڑکپن میں پیش ایا اور جس نے اقبال کے انداز نظر پر گہرا اثر ڈالا تھا۔۔اقبال کی زندگی کے نفسیاتی احوال پر ان کے والد کی تربیت کا اثر تھا متصوفانہ علم کی تحصیل خاندان میں ومروثی تھی اوعر اس مقصد کے لیے ان کے والد نے کئی مہینے ایک عارف کے ساتھ تخلئے میں بسر کئے تھے۔۔ان کے والد نہ اپنا یہ علم اپنے بیٹے اقبال کو دی جو اس وقت اعلی علوم کی تحصیل کے لیے تیار نہیں تھے لیکن بیچ موجود تھا جسے اقبال نے خود سینچا۔۔
اس کے بعد عطیہ بیگم نے اقبال کے والد کی کرام کا واقعہ بیان کیا ہے جسے خود اقبال نے انہیں سنایا تھا۔۔ ان حقائق کے پیش نظر ہمیں تعجب محسوس نیں ہوتا جب ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی شاعری کے ابتدائی دور میں اقبال بقول میاں شریف (جمالیات اقبال کی تشکیل) میں فرماتے ہیں اقبال صرف نوفلاطونی ہی نہ تھے بلکہ وحدت الوجود پر کاملا یقین رکھتے تھے اس زمانےمیں فلاطینیوس کی طرح اقبال کو فطرت کے مناظر میں ہر کہیں محبوب ازلی کے جمال آرا کی تجلیاں دکھائی دیتی تھیں۔۔فلاطینیوس نے ذات محض کا تصور حسن ا زل کی صورت میں کیا تھا۔۔ اس کا عقیدہ تھا کہ محبوب حقیقی کے حسن و جمال کے جلوے دنیا کی تمام اشیا میں پرتو فگن ہیں جنیں دیکھ دیکھ طالبان صادق اور عشاق ھقیئقی کے دل تڑپ تڑپ جاے ہیں۔۔اقبال نے اس دور کی نظموں میں بڑے ولولہ انگیز اور دلاویز پیرائے میں ان خیالات کا اظہار کیا ہے۔۔
جس کی نمود دیکھی چشم ستارہ نے۔۔
خورشید میں قمر میں تارروں میں انجمن میں
صوفی نے جس کو دل کے ظلمت کدے میں پایا
شاعر نے جس کو دیکھا قدرت کے بانکپن میں
جس کی چمک ہے پیدا جس کی مہک ہویدا
شبنمم کے موتیوں میں پھولوں کے پیراہن
صحرا کو بسایا ہے جس نے سکوت بن کر
ہنگامہ جس کے دم سے کاشانہ چمن میں
۔۔۔کی گود میں بلی دیکھ کر’’ فرماتے ہیں
خاص انسان سے کچھ حسن کا احساس نہیں
صورت دل ہے نہ چیز کے باطن میں مکیں
شیشہ دہر میں مانند مے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب میں
دل ہر ذرہ میں پوشیدہ کسک ہے اس کی
نور وہ ہے کہ ہر شے میں جھلک ہے اس کی
کہیں ساماں مسرت کہیں ساز غم ہے
کہیں گوہر ہے کہیں اشک کہیں شبنم ہے
جگنو میں کہتے ہیں
حسن ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انسان میں وہ سخن ہے غنچے میں وہ چٹک ہے
یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا
واں چاندنی ہے جو کچھ یاں درد کی کسک ہے
انداز گفتگو نے دھوکے دئے ہیں ورنہ
نغمہ ہے بوئے بلبل، بو پھول کی مہک ہے
جگنو میں جو چمک ہے وہ پھول کی مہک ہے
جاری ہے
Comment