Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

    اقبال کا نظریہ وحدت الوجود


    اقبال کے نظریہ وحدت الوجد پہ مفصل اور سیر حاصل تحریر کےساتھ جلد ہی اس پوسٹ میں حاضر ہوتا ہوں اقبال کے افکار کو سمجھنے کے لیے فلسفے کا منتہی ہونا ضروری ہے یہ بات محض ناقدین ادب یا صوفیہ کے بس کی بات نہہیں چنانچہ اقبال کے نظریہ وحدت الوجود پہ بات کرنے سے پہلے نظریہ وحدت الوجود، فلا طینویس کی نو اشراقیت، ، خدا کا سامی یا ماورائی تصور
    اور آرایائی یا سریانی نظریات اور ان کا تاریخی پس منظر پہ بات کریں گے تاکہ ان اصحاب کے لیےسہولت فہم کا باعث ہو جنہیں اقبال کے افکار فلسفے کو حوالےسے سمجنے؎کی آرزو ہے



    خوش رہیں



    ڈاکٹر فاسٹس
    حاجی شاہ اٹک






    :(

  • #2
    Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

    اسلام علیکم ڈاکٹر صاحب مجھے آپکی طرفسے اس ٹاپک کا انتظار تھا مگر میری ایک استدعا ہے کہ آپ اس موضوع کو جہان تک ممکن ہوسکے محدود رکھتے ہوئے کلام کیجیئے یہ فلا طینویس کی نو اشراقیت، ، خدا کا سامی یا ماورائی تصور اور آرایائی یا سریانی نظریات کیا ہیں اور ان کا تاریخی پس منظر کیا ہے بات اگر ان نقاط تک نہ پھیلے تو میں سمجھتا ہوں کہ سہولت رہے گی ۔ میری عرض فقط اتنی ہے کہ اس طرح سے آپ موضوع کو بہت ژولیدہ فکر بنا دیں گے جس سے موضوع بجائے سلجھنے کہ الجھن کا شکار ہوجائے گا اور پیچیدگی بڑھ جائے گی آپ اپنی بات کو فقط شیخ اکبر کہ نظریہ وحدت الوجود کی حقیقت اور اسلام سے اسکہ تعلق کی نوعیت تک محدود رکھیں اور پھر اسکے بعد اقبال پر اس کے اثرات کی وضاحت فرمائیں کہ*آیا اقبال اس سے متاثر تھے یا ناقد وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ والسلام
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #3
      Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

      واعلیکم اسلام


      بہت شکریہ عابد
      :rose

      میری بھی کوشش یہی یہی کہ یہ مضمون اختصار کے دائرے میں رہے چونکہ نظریہ وحدت الوجود فلاطینوس کے نظریہ تجلی ہی کی بازگشت ہے اور فلاطینویس کی نوشراقییت اس لہاظ سے بیش از بیش تاریخی اہمیت رکھتی کہ وہ براہ راست عیسوی علم کلام اور بالواسطہ مسلمانوں کے افکار
      پر اثر انداز ہوئی تو اس کا مختصر جائزہ لئے بغیر ہم پوسٹ کو اگے نہیں بڑھا سکتےبہ امر مجبوری میں مخصرا ان تصریحات جن کو اپ نے ریڈ لائن کیا تشریح کروں گا اور زیادہ ڈیٹیل میں نہیں جاں گا

      معذرت کہ اجکل بجلی چھ چھ گھنٹے غائب تو اس ٹاپک کو ان پیج کرنے میں مجھے وقت لگ رہا ہے بہر کیف کل کوشش کروں گا
      اس کی پہلی قسط پوسٹ کر دوں


      خوش رہیں


      ڈاکٹرفاسٹس
      :(

      Comment


      • #4
        Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

        :rose

        Click image for larger version

Name:	faustus1.gif
Views:	1
Size:	133.6 KB
ID:	2423873
        :(

        Comment


        • #5
          Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

          Click image for larger version

Name:	new1.gif
Views:	1
Size:	25.4 KB
ID:	2424077

          Click image for larger version

Name:	new2.gif
Views:	1
Size:	61.0 KB
ID:	2424078


          Click image for larger version

Name:	new3.gif
Views:	1
Size:	26.7 KB
ID:	2424079



          جاری ہے۔۔۔
          :(

          Comment


          • #6
            Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

            معزرت کے ساتھ
            * آپ ان تمام حقائق ، سوچ اور نظریات کو اگر اپنے نظریہ کے ملاپ کے ساتھ پیش کرتے تو زیادہ لطف آتا
            ابھی تو انگلش مووی کا اردو ورژن لگ رہا ہے
            Last edited by Jamil Akhter; 20 July 2012, 09:01.
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

              Click image for larger version

Name:	new4.gif
Views:	1
Size:	24.3 KB
ID:	2424097


              Click image for larger version

Name:	new5.gif
Views:	1
Size:	61.1 KB
ID:	2424098
              :(

              Comment


              • #8
                Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                اس نے کہا کہ عقل انسانی مرور محض کو سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ احوال و طروف کا ٹجرے ٹکرے کر کے دیھکتی ہے مرور محض کا ادارک صرف ایک قسم کی باطنی وقت سے ہو سکتا ہے جسے اس نے وجدان کا نام دیا اور جس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وجدان جبلت ہے جس میں خود اگاہی پیدا ہو گئی ہے۔اس خرد دشمنی اور متصوانہ باطینیت کے باعث برگساں کے ان افکار کا مسیحی حلقوں میں بڑے جوش و خروش سے خیر مقدم کیا گیا۔اقبال نے برگساں سے تخلقی ارتقا کا نظریہ اخد کر کے اس کی اپنے مذۃب کے نقطہ نظر سے متکلمانہ ترجمانی کی۔اس کے ساتھ اقبال ارتقائے بزوری سے بھی متاثر ہوئے اس نظرئے کے شارحین میں لائڈ مارگن اور الگزنڈر نے شہرت حاصل کی ان کا خیال ہے کہ ارتقا کا عمل مسلسل و لامتناہی ہے اور کسی کاص نقطے پر پہنچ کر اس کے رک جانے کا کوئی امکان نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ مادے سے حیات کا ارتقا ہوا حیات سے ذہنی انسانی کا اور ذہنا نسانی سے یہ عمل یزدانیت ک ی طرف پیش قدمی کر رہا ہے۔۔برگساں اور الگزنڈر کے افکار میں گہری مماثلٹ پائی جاتی ہے دونوں نظریے متصوفانہ اور سریانی ہیں ان پر محاکمہ کرتے لارڈ برتڑنڈ رسل اپنی تالیف ’” سائنس و مذہب ‘‘ میں لکھتے ہیں

                پروفیسر الگزنڈر ارتقائے بزوری کا نمانیندہ ہے وہ کہتا ہے کہ جامد مادہ حرکی اور ذہن انسانی بتدریج ارتقا پذیر ہے جو لائد مارگن نے پیس کیا ہے اے بروز ( ایمرجینٹ ) کا نام دیا ہے زندگی کا بروز مادے سے ہوتا ہے اور ذہن کا زندگی سے۔ایک زندہ چیز مادی چیز ہر البتہ اس میں ایک نئی صفت کا ظہور ہوتا ہے جسے زندگی کہتے ہیں یہی بات ہما س عمل کے متعلق کہہ سکتے ہیں جو زندگی سے ذہن کی جانب ہوتا ہے ایک با ذہن شخص زندہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کے ارتقا میں ایسی پیچیدگی ہوتی ہے اور اس کے اجزائے باہم اس قدر مربوط و منتظم ہوتے ہیں بالکصوص اس کے نظام عصبی میں یہ ربط اس قدر رقیق و دقیق ہوتا ہے کہ اس ذہن یا شعور کا ظہور ہوتا ہے‘“ وہ کہتا ہے یہ کیوں سمجھ لی جائے کہ یہ ارتقائی عمل ذہن پر اکر رک جائے گا ذہن سے اگے بھی ایک صفت کا نقش مبہم ملتا ہے جس کا ذہن سے وہی تعلق ہے جو ذہن اور زندگی سے اور زندگی کا مادے سے ہے اس صفت کو میں یزدانیت کہتا ہوں جس چیز میں یہ پائی جاتی ہے وہ خدا ہے

                وہ کہتا ہے کہ کائنات اس یزدانیت کا پالینے کی سعی کر رہی ہے یہ یزدانیت تاحال نمودار نہیں ہوئی ‘‘ وہ کہتا ہے کہ خدا خالق نہیں ہے جیسے کہ تااریخی مذہاب کہتے ہیں بلکہ مخلوق ہے۔۔پروفیسر الگزنڈر اور برگساں کے تخیلیقی ارتقا میں گہری مماثلت ارو ربط ہے برگساں کہتا ہے کہ جبریت غلط ہے اور دوران ارتقا میں نت نئی کیفیات کا ظہوت ہوتا ہے جن کی ابتدا میں تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ایک پر سرار قوت ہر چیز کو ارتقا پر مجبور کر ہی ہے مثال کے طور پر ایک جاندار جو بصارت سے عاری ہے نامعلوم طور پر احساس ہوتا ہے کہ مجھے بصارت ملنے والی ہے تو وہ اسی طرح عمل کرتا ہے جو بصارت پہ متنج ہوتا ہے۔ہر لمحہ نئے نئے اعمال کا بروز ہوتا ہے لیکن ماضی کبھی فنا نہیں ہوتا یاداشت میں محفوظ رہتا ہے۔۔فراموش کاری محض ظاہر کا دھوکہ ہے اس طرح دنیا مسلسل ترقی کر رہی ہے اور ایک وقت ائے گا جب یہ سابق سے بہتر ہو جائے گی صرف ایک چیز سے کنارہ کشی کرنا ضروری ہے وہ عوقل و خردف ہے جو جامد ہے اور ماضی کی طرف مائل رہتی ہے ہمیں اپنے وجدان کو بروئے اکر لانا چاہیے جس میں نئی نئی کیفات کے اختراع کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ پروفیسر الگزنڈر نے برگسں کے فلسفہ کو بہ تمام و کمال قبول کر لیا بہرحال دونوں میں گہری مما ثلت ہے اگرچہ دونوں فلسفے آزادانہ نمودار ہیں ارتقائے بزوری کے مدعی اس خیال کا ظہار کرتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو خلق نہیں کیا نبلکہ کائنات خدا کو خلق کر رہی ہے روایتی مذاہب کے خدا کے ساتھ اس خدا کا تعلق برائے نام رہ گیا ہے ۔۔




                جاری ہے
                :(

                Comment


                • #9
                  Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                  برگساں اور الگزنڈر کے ان ارتقائی نظریات نے کدا کے سریانی تصور کو اہل مذہب میں نئے سرے سے رواجو قبول بخشا۔۔عیسائی علما نے ماورائیت کے سامی تصور کو خیر اباد کہا اپنی الیہات میں سریان کے اس تصور کو داخل کرنے پہ مجبور ہو گئے کیونکہ ارتقا کا مسلم سمجھ لیا جائے تو موارائی خدا اس عمل سے الگ تھلگ رہ کر معطل ہوجائے گا اور مذہب کی پیش کردہ اخلاقی قدریں بے معنہ کو کر رہ جائیں گی اس سریانی عقدیے نے اہل مشرق اور زیادہ رت ہندوستانیوں کو متاثر کیا ایچ اے ار گب لکھتے ہیں
                  اۃل مغرب کے سریانی تصورات عرب ممالک کے مسلامنوں کے ماورائی تصور سے متصادم نہیں ہوئے ان کا تصادم ہندی مسلمانوں کی ماورائیت سے ہوا ان کی الہات پر ان تصورات کا گہرا اثر ثبت ہوا ہے
                  ارووندو گھوش اور اقبال کے لیے سریان کا یہ تصور قدیم ویدانت اور وحدت الوجود کے مانوس تصور ہی کی بازگشت تھی جو صدیوں سے ان کے آبا و اجداد کے مزاج عقلی کا جزو لازم بن چکے تھے۔۔یہ حقیقت خالی از دلچسپی نہیں ہے کہ اقبال اپنے فکر و نظر سے کسی دور میں بھی ماورائی نہیں تھے۔ شروع شروع میں وہ وجودی سریانی تھے بعد میں ارتقائی سریانی ہو گئے اپنے خطبات میں انہوں نے ذات باری کا یہیہ سریانی تصور پیش کیا فرماتے ہیں

                  ’’ اندریں صورت ہمیں فطرت کے ابرے میں یوں کہنا چاہیے کہ یہ حقیقی ’’انا ‘‘ کی تخلقی فعالیت کی وہ تعبیر ہے جو ہم پنے ارتقا کی موجودہ منزل میں انسانی نقطہ نظر سے کرتے ہیں پھر اس پہیم اور ہر لحظہ پیش رس حرکت میں اس کی حیثیت گو ہر لمحے پر متناہی ہو گی لیکن ہستی جس سے اس جز کو کل کا سا تعلق ہے چونکہ خلاق ہے لہذا اس میں اجافہ ممکن نہیں لہذا ہم اس کو لامحدود کہتے ہیں تو ان معنوں میں کہ اس کی وسعت پر کوئی حد قائم نہیں کی جاسکتی یعنی وہ غیر محدود ہے تو بالقوہ بالفعل نہیں اور اس کے لیے فطرت کا تصور بھی بطور ایک زندہ اور ہر لحظہ بڑھتی ہوئی اور پھیلتی ہوئی وحدت نامیہ کے حیثیت سے کرنا چاہیے جس کی نشو نما پر ہم کارج سے کوئی حد قائم کر سکتے ہیں اس کی کوئی ھد ہے تو داخلی یعنی وہ ذات مشہود جو اس میں جار و ساری ہے اور جس نے اسے سہارا دے رکھا ہے ‘‘

                  اقطل کے اس سریانی تصور ذات باری پر دو اعتراضات وارد ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ سریان کا تصور لازما غیر شخصی ہوتا ہے جس سے مذہب کے شخصی تصور ذات کی نفی ہوتی ہے اور دوسرا ہیہ کہ اگر کائنات ہر لمحہ ارتقا پذیر ہے اور اس ارتق کا باعث ذات باری ہے جو اس میں جاری و ساری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذات باری ناقص ہے جسے ارتقا کے مراحل طے کرنے کی ضرورت ہے



                  جاری ہے
                  :(

                  Comment


                  • #10
                    Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                    اقبال کو بھی انا عتراضات و ایردات کا اندیشہ تھا چنانچہ پہلے اعتراض کی پیش قیاسی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ھقیقت مطلقہ جو کائنات میں جاریو ساری ہے انائے مطلق ہے۔لیکن ذات باری کا مذہبی تصور کے لیے جروری ہے کہ خدا کائنات سے ماورا ہو اور شخصی ہو۔۔شخصیت اور ماورائیت لازم و ملزوم ہیں چنانچہ اقبال کا یہ ادعا کے انائے مطلق کائنات میں ساری ہے اجتماع المغائرین کے مترادف ہے علاوہ ازیں انائے مطلق کا یہ نظریہ فشٹے سے امخوز ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے اقبال کہتے ہیں کہ تمام خودیوں کا صدور انائے مطلق سے ہی ہو رہا ہے اور یہ خودیاں نفوس پہ مشتمل ہیں۔یہ تسلیم کر کے وہ گویا وحدت الوجود کے متصوافانہ نظریے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ابن عربی کے افکار کا سنگ بنیاد بھی یہہ عقیدہ ہے کہ ذات احد کائنات کے تمام مظاہر و شئیون میں جاری و ساری ہے اقبال نے صرف اتنا کیا کے فشٹے کے تتبع میں ذات احد کو انائے مطلق کا نام دے دیا ہے حقیقت یہ ہے کہ ہم گیر روحیت کے تما نظریے ذات باری کے شخصی تصور کی نفی کرتے ہیں۔
                    دوسرے خدشے کے ازالے میں اقبال کہتے ہیں
                    ہم دیکھ ائے ہیں کہ نائے مطلق ہی تمام حقیقت ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ انا بھی ایک ایسے عالم کو جو اس سے بیگانہ ہے خارج سے مشاہدہ کر رہا ہے اس کی زندگی کے جملہ شئیون و اطوار خود اس کے اندر متعین ہوتے ہیں لہذا ہما س کی ذات میں تغیر کا اثبات کرتے تو ان معنوں میں نہیں کہ وہ ایک حرکت ہے نقص سے کمال کی طرف یا کمال سے نقص کی طرف یوں بھی تغیر کا یہی ایک مفہوم نہیں واردات شعور میں گہری بصیرت سے کام لجئے تو یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کے متسلسل استدام کی تہ جس کا تعلق گویا ان کی سطع سے ہے استدام محض موجود ہے اب حقیقی انا کی زندگی چونکہ استدام محض کی زندگی ہے لہذا اس میں تغیر کی مجودگی کا مطلب تو یہ نہیں کہ ہم اس کو بدلتے ہوئے رویوں کا ایک تواتر قرار دیں۔برعکس اس کے یہاں اس کی حقیقی نوعیت کا اظہار مسلسل خلاقی میں ہو رہا ہے جس میں تھکن کا شائیبہ ہے نہ اونگھ اور نیند کا۔اس کو بے تغئیر ٹھہرایا گیا تو ہم اس کا تصور محض ایک تعطل ایک بے مقصد اور بے حرکت بے رنگی یا ایک مطلق لا شے ہی کے طور پر کس سکیں گے ۔دراصل ایک ایسے انا کے لیے جو سر تا سر خلاق ہے تغیر کے معنی نقص کے نہیں ہو سکتے۔۔



                    جاری ہے
                    :(

                    Comment


                    • #11
                      Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                      ..

                      برگساں کے نظریات فلاطینویس ہی س ماخوز ہیں لارڈ برٹرنڈرسل کہتے ہیں کہ برگساں نے فلاطینیوس کے فلسفے میں ذہ بھر اضافہ نہیں کیا۔۔ڈاکٹر عشرت حیسن سپیکٹیکل مضامین میں اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ برگساں کا نظریہ دراصل قدیم تصوف کی نئی ترجمنای ہے اقبال نے صرف اتنا کیا ہے کہ ابن عربی کے وجودی سریان و اشررارق کو برگساں اور لائڈ مارگن کے ارتقائی سریان میں تبدیل کر دیا ہے۔۔خیال رہے کہ اقبال ابن عربی کے افکار کو الحاد و زندقہ پر مشتمل سمجھتے تھے فرماتے ہیں کہ
                      تصوف کا پہلا شاعر عراقی ہے جس نے لمعات میں فصوص الحکم محی الدین ابن عربی کی تعلیموں کو نظم کیا ہے جہاں تک مجھے معلوم ہے فصوص میں الحاد و زندقہ کے سوا کچھ نہیں ( اقبال نامہ جلد اول ) ۔۔

                      یہ فتوی اس لیے صادر کیا گیا تھا کہپ ابن عربی دوسرے نو اشراقیوں کی طرح ذات باری کے سرین پر محکم عقیدہ رکھتے تھے۔۔ابن عربی نے جابجا ماورائیت کو بھی تسلیم کیا ہے فصوص الحکمت میں فرماتے ہیں

                      وجوب ذاتی جو حق تعالی کا خاصہ ہے اس میں ممکن کو کوئی حصہ نہیں ملا لہذا حق تعالی ورا الورثم ورا الورا ہے اور رہے گا۔۔

                      اسی کتاب میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے

                      خدا ٌخدا ہے خواہ وہ کتنا تنزل کرے اور عبد عبد ہے خواہ کتنی ترقی کرے


                      یہ صحیح ہے کہ ابن عربی کا بنیادی نظریہ سریانی ہے لیکن اقبال کے سریان میں تو ماورائیت و تہنزیہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔۔وہ فطرت کو وحدت نامیہ مانتے ہیں جس میں ذات مشہور جاری و ساری ہے اور اس کی نشو نما کے ساتھ مسلسل تخلیق کے عمل میں سر گرم ہے۔۔ڈاکٹر خیلفہ عبالحکیم ‘‘ تشبیہات رومی ’’ میں فماتے ہیں

                      خدا کو مختلف مذاہب نے مختلف ناموں سے یاد کیا ہے مسیحی سے آسمانی باپ کہتے ہیں بعج ہندی رشیوں نے اسے ماں کہا ہے مسلمان اسے عم گفتگو میں رحمان و رحیم رب کہتے ہیں گوتھم بدھ اس کے متعلق دم بخود ہیں اور اس کو کسی نام سےن یاد کرنا حقیقت سے تنزل سمجھتے ہیں زمانہ حال کے بعض فلسفی جیسے برناڈ شا برگساں اور اقبال اس کو خلاقی اور ارتقائی قوت و میلان سمجھتے ہیں



                      اس خلاقی اور ارتقائی قوت و میلان کو اسلام کے خدا سے کوئی نسبت نہیں ہے۔۔۔


                      جاری ہے
                      :(

                      Comment


                      • #12
                        Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                        اقبال اور نظریہ وحدت الوجود کے تناظر میں ہم نے نظریہ وحدت الوجود کا تاریخی پس منظر محو بالہ اوراق میں پیش کیا اور تفصیل سے فلاطینیوس سے برگساں تک کے نطریات بیان کئے اور پھر یہ ثابت کیا اقبال کے ہاں خدا کا تصور ایک ارتقائی قوت و میلان ہے جو کائنات کے ساتھ ارتقا پذیر ہو رہا،،ظاہر ہے اس خدا کو اور ااسلام کے مروجہ شخصی خدا سے کوئی نسبت نہیں۔۔ان تمام چیزوں کو ذہن نشین کر کے ہم اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہیں یعنی اقبال اور نظریہ وحدت الوجود


                        وحدت وجود یا ہمہ اوست کا نظریہ خالصتا آرایائی ہے اور کسی نی کسی صورت میں تمام آرایائی اقوام میں مقبول و مروج رہا ہے۔۔فلاطینیوس، شنکر اور محی الدین ابن عربی اس نظریے کے شارحین میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔۔محی الدین ابن عربی گو عرب نژاد ہونے کے مدعی ہیں لیکن ان کے آباو اجداد صدیوں سے ہسپانیہ میں مقیم تھے جہاں مختلف نسلوں کلا اختلاط عمل میں آیا۔۔عفیفی نے اپنئی محققانہ تحقیق ‘“ محی الدین ابن عربی ’’ میں ثابت کیا ہے کہ ابن اعربی رسائل اخوان الصفا کے واسطے سے فلاطینویس کے افکار و نظریات سے متاثر ہوئے از بسکی تنزیہ اور ماورائیت کے تصوارت سامی النسل اقوام کے مزاج عقلی میں رچے بسے ہوئے تھے۔۔اس لیے محی الدین ابن عربی کے سریانی اور وجودی نظریے کی عرب ممالک میں شدید مخالفت کی گئی شام میں ابن قیم، ذہبی وغیرہ نے اور نجد میں محمد بن عبدالوہاب نے ابن عربی پر کفر کا فتوی لگایا۔۔بعض علما نے یہاں تک کہہ دیا کہ جو شخص ابن عربی کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔۔ابن مقری کہتے ہیں
                        و من فی کفر طائتہ ابن عربی ہو کافر۔۔ایک صاحب نے کہا کفرہ اشد من کفر الیہود و لنصاری۔۔اس کے برعکس ایران اور ہندوستان کی آرایہ نژد اقوام میں ابن عرب کے افکار کو حیرت انگیز مقبولیت ھاصل ہوئی۔۔مولوی جلال الدین رومی نے ابن عربی کے لے پالک اور شاگرد صدر الدین قونوی کے درس میں ‘“ فصوص الحکم ’’ پر ان کی تقریریں سنی تھیں چنانچہ مثنوی معنوی میں ابن عربی کے عقائد ہی کی شرح و بسیط سے ترجمانی کی گئی ہے۔۔ان کے علاوہ عطار جامی، عراقی، محمود شبستری اور ھافظ شیرازی نے وحدت الوجود کے نظریے کو شاعری کے روپ میں پیش کیا۔۔۔


                        ایران کی طرح ہنداستان کے اکثر صوفیہ نے وحدت الوجود کی پر جوش ترجمانی اور تبلیغ کی ہے ہندوستان میں چشتیہ سلسلے کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی اس کے مشائخ نے پاک پتن سے لیکر لکھنو اور دلی اور دیو گیر تک خانقاہیں قائم کیں ان میں خواجہ قطب الدین بختای کاکی شیخ غلام فرید گنج شکر، شیخ نظام الدین اولیا، شیخ نصیر الدین، چراغ دہلوی، سید اشرف جہانگیر سمنائی، سید محمد گیسو دراز، شیخ سلیم چشتی، شاہ کلیم الدین دہلوی، سید حیدر علی شاہ جلالپوری اور اب ان کے خلفا نے ہمہ اوست کی اشاعت و ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا علما میں شیخ عبالحق دہلوی، شاہ رفیع الدین اور مولانا محب الدین بہاری نے عقلی و نقلی دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ لیس المکن واجب تعالی ’’ کوئی ممکن واجب تعالی سے الگ نہیں ہے ’’ وحدت وجود کی ہمہ گیر مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب سلسہ مجددیہ کے بانی شیخ احمد سرہندی نے ابن عربی کی تکفیر کی و صوفیہ ہند میں زبدست مباحثے کا اغاز ہوا۔۔لیکن صوفیہ کی اکثریت کا رجہان ہمیشہ ہی وحدت الوجود کی طرف رہا ہے،،چنانچہ جب اقبال نے پورپ سے لوٹ کر حافظ شیرازی کی مخالفت میں اشعار لکھے تو ملک بھر میں احتجاج کی لہر داڑ گئی اور اقبال کو وہ اشعار مثنوی اسرار و رموز سے حذف کرنے پڑے۔۔


                        جاری ہے
                        :(

                        Comment


                        • #13
                          Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                          یار اتنی شاندار اور فلسفیانہ تحریر اور یہ جگا والا اواتر
                          :lol
                          ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                          سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                          Comment


                          • #14
                            Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                            ویدانت اشراقیت اور ابن عربی کے وحدت الوجود میں بنیادی اصول اور قدریں مشترک ہیں،،تنیوں نظریہ احیدت کے ترجمان ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کائنات میں اصرف ایک ہی اصل الا صول کے قائل ہیںً۔۔احدیت کو واحدانیت نے مخلوط نہ کیا جائے۔۔وحدانیت میں خدا کو مختار مطلق اور فاعل بااختیار سمجھا جاتا ہے جو اشیا کو عدم سے وجود میں لا سکتا ہے اس میں دوئی کا تصور لازما موجود ہوتا ہے۔۔خالق اور مخلوق کی دوئی۔۔ویدانت میں اشراقیت اور وحدت الوجود میں اس دوئی کو تسلیم نہیں کیا جاتا بلکہ خالق اور مخلوق ذات مطلق اور کائنات کو ایک دوسرے کا عین سمجھا جاتا ہے اور ان میں کسی قسم کا انفکاک ناممکن خیال کیا جاتا ہے ساس نظریے کی رو سے وجود کی وحدت حقیقی ہے کثرت یا تعدد اعتباری ہے وجودی مفکرین اور صوفیہ نے ھق تعالیٰ پر وجود کا اطلاق کیا ہے ملا صدر الدین شیرازی اسفا اربعہ میں اس موضوع پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں


                            بطور لفظی اشتراک کے وجود کا اطلاق چند معنوں پر ہوتا ہے جن میں ایک اطلاق یہ ہے کہ شے کی ذات اور اس کی حقیقت کو بھی وجود کہتے ہیں اوع یہ وہی چیز ہے جس سے عدم یا نیستی گریز کرتی ہے اور ناپید ہوی ہے۔وجود کا یہ معنی عدم کے منافی ہے حکما کی اصلاح میں وجود کا اطلاق واجب تعالیٰ پر اسی معنی کی رو سے ہوتا ہے۔جن لوگوں نے وجود کے لفظ سے واجب تعالیٰ مراد لیا ہے اسن میں شیخ عطار بھی ہیں



                            ابن عربی کے مشہور پیرو شیخ عبالکریم الجلیلی انسان کامل میں لکھتے ہیں

                            موجود کی دو قسمیں ہیں ایک موجود محض اور وہ ذات باری تعالیٰ ہے اور دوسری جو عدم سے ملحق ہے اور وہ ذات مخلوقات ہیں ‘

                            احدیت ے تینوں نظریے سریانی ہیں شنکر کا برہمن فلاطینیوس کی ذات محض اور ابن عربی کی ذات مطلق کائنات سے ماورا نہیں بلکہ اس کے مظاہر و شئیون میں جاری و ساری ہے مولانا صدر الدین قونوی فرماتے ہیں

                            وہ جو ظاہر ہے اور ممکنات کے اعیان پہ چھایا ہوا ہے اور اس میں منبط ہے وہ حقائق کی جمعیت کے سوا کچھ نہیں۔۔اسی کو وجد عام کہتے ہیں اور یہی وہ تجلی ہے جو تمام ممکنات میں سرائیت کئے ہوئے ہے۔۔


                            حاجی ملا ہادی سبزواری ن ’’ اسراد الحکم’’ میں وحدت وجود کی جو نہایت بلیغ اور جامع تعریف کی ہے راقم کی نظر سے ایسی تعریف نہیں گزری کہتے ہیں الوجود حقیقۃ واحتدۃ بسیطۃ ( وجود حقیقی ہے ایک ہے اور بسیط ہے ) شیخ محی الدین ابن عربی صفات کو ذات کا عین سمجھتے تھے چنانچہ وحدت وجود کے اثبات میں ان کا استدلال یہ تھا


                            صفات ذات کی عین ہیں
                            کائنات صفات کی تجلی ہے
                            چونکہ صفات عین ذات ہیں
                            اس لیے کائنات بھی عین ذات یہ ہے



                            ان کے خیال میں وجود مطلق یا ذات تعلیٰ سے علیحدہ جو بھی شے ہے وہ معدوم مھض ہے۔۔بقول دارشکوہ عارف و شاہد محب و محبوب، طالب و مطلوب جز یک ذات نیست ہر کہ یک ذات است معدوم محض است



                            جاریی ے
                            :(

                            Comment


                            • #15
                              Re: اقبال کا نظریہ وحدت الوجود

                              ..


                              ویدانتی احدیت کو ادویتا ( جو دو نہ ہو ) کہتے ہیں اور حقیقت مطلق یا ذات بحت کو پرم یا آتما کا نام دیتے ہیں ن کے خیال میں اسی برہمن سے کائنات کا صدور ہوا ہے،،جیو آتما ( انسانی روح ) پرم آتما (روح کل ) سے جدا ہوئی ہے جب جیو آتما پر مایا کثرے و تعدد کا فریب واجح ہو جاتا ہے تو وہ مکتی کے ھصول میں کوشاں ہوتی ہے یعنی دوبارہ اپنے مبدا میں فنا ہو جانے کئے کوشش کرتی ہے


                              فلاطینویس کے نظریے میں بھی وجود ذات محض کے سوا کسی کا نہیں اس کے خیال میں ذات محض سے پہلے عقل کا اشراق ہوا پھر روح کا اور پھر مادے کا۔۔روح مادے کی آلائش سے پاک ہو کر اپنے مصدر حقیقی سے اتحاد کر سکتی ہے ۔۔اس نظریے کو عرب نو اشراقیوں نے انفصا(جدا ہونا) اور انذاجب ( جذب ہونا ) کا نام دیا ہے۔۔پرم اتما محض یا ذات مطلق سے وصل یا اتحاد کے وسائل مختلف ہیں۔۔اہل سلوک و طرقت میں س کچھ لوگ مجاہدے اور ریاضت کو بروئے کار لاتے ہیں یہ عمل یا کرم کا راستہ ہے۔۔بعض عشق یا بھگتی کی راہ پہ گامزن ہیں اور بعض تفکر یا جنانا کو موثر سمجھتے ہیں

                              وحدت الوجود اور ویدانت میں اس قدر مماثلت پائیجاتی ہے کہ بعض صوفیہ اپنشدوں کا الہامی کتاب شمار کرنے لگے۔۔دارشکوہ نے پچاس انپشدوں کا فارسی میں ترجمہ کروای اور اس کا نام ’ سر اکبر ‘ رکھا۔۔اس نے اپنئ تالیف ’ مجمع البحرین میں وحدت اولوجود اور ودانت میں مفاہمت کی بھی کوشش کی۔۔علاوہ ازیں صوفیہ ہند نے ریاضت کت بہے سے طریقے ہندو یوگیوں سے سیکھے چنانچہ مراقبے اور سمادھی میں صرف نام ہی کا فرق ہے اے ایم شستری نے کتاب آوٹ لائین آف اسلامک کلچر میں تصوف اور ویدانت کے درمیان اٹھ مشترک باتوں کا ذکر کیا ہے

                              دونوں میں حبس دم کرتے ہیں، دونوں میں مراقبہ یا سمادھی ہے۔۔۔دونوں مرشزد یا گرو کی خدمت پر زور دیتے ہیں۔۔دونوں مجاہدے اور ریاضت سے کام لیتے ہیں اور فاقے کرتے ہیں۔۔دونوں میں ذات مطلق کے ساتھ اتحاد پر عقیدہ ہے۔۔دونوں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو رواداری کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔۔



                              وحدت وجود کی تشریخ اور ویدانت اور نواشراقیت کے ساتھ ربط و تعلق کا ذکر کرنے کے بعد ہم دیکھیں گے کہ اقبال اپنے فکر و شاعری کے مختلف ادوار میں اس تصور سے کس حد تک متاثر ہوئے




                              اقبال کو دو واسطوں سے وحدت الوجود ہا یمہ اوست کا نظریہ ذہنی اور ذوقی میراث میں ملا تھا۔۔۔ایک تو وہ برہمن نژاد تھے اور سریان کا تصور ان کے اباو اجداد کے ذہن و عقل میں نفوذ کر چکا تھا اور دسرے ان کے والد ایک صاحب کشف و حال صوفی تھے جن کے احوال و کرامات کا ذکر اقبال اپنے دوستوں سے کای کرتے تھے عطیہ بیگم ان کے متصوفانہ رجحناات کا ذکر کرتے ہوئے اپنی تالیف ‘‘ اقبال ’’ میں لکھتی ہیں




                              جاری ہے
                              :(

                              Comment

                              Working...
                              X