دلکش پرندہ
ہمارا ذہن اِک آذاد پنچھی کی طرح سے ہے
جو ہر اِک پل
کسی پرواز کو تیار رہتا ہے
مگر کچھ لوگ اِس کو ایک پنجرے میں
مقیّد کر کے رکھتے ہیں
اِسے سونے کا دانہ تو کھِلاتے ہیں
مگر
آزاد ہی ہونے نہیں دیتے
اِسے اپنی خوشی اور اپنی خواہش سے
کبھی جگنے نہیں دیتے
کبھی سونے نہین دیتے
یہ ہنسنا چاہتا ہے تو
اِسے ہنسنے نہیں دیتے
یہ رونا چاہتا ہے تو
اِسے رونے نہیں دیتے
بہت سی خوبصورت منزِلوں کو
کبھی پانے نہیں دیتے
کبھی بدبو ذدہ بیرنگ بیوقعت
رویّوں کو
کہیں کھونے نہیں دیتے
مگر
میرے ذہن میں جو پرندہ ہے
بڑا سرکش بڑا باغی ہے یہ
یہ میرے دل کی ٹہنی پر
ٹہرتا ہی نہیں آکر
ہمیشہ کھول کے پر
سوچ کی پرواز کو تیّار رہتا ہے
یہ ہر اِک شخص کا ڈالا ہوا
دانہ نہیں چُگتا
کسی بھی دوغلے چہرے کو گر دیکھے
شور کرنے سے نہیں رُکتا
اِسےجب چوٹ لگتی ہے
تڑپتا ہے
پھڑکتا ہے
جھٹکتا ہے
جھگڑتا ہے
کبھی آنسو گراتا ہے
کبھی فریاد کرتا ہے
مجھے یہ تنگ کرتا ہے
یہ مجھ سے جنگ کرتا ہے
مگر پھر بھی
بڑانایاب پنچھی ہے
بڑا دِلکش پرندہ ہے
مجھے اِس سے محبّت ہے
خوشی ہے کہ
یہ زندہ ہے
کبھی یہ روٹھ جاتا ہے
کبھی یہ مان لیتا ہے
مگر مجھ سے مخاطِب ہو
تو میری جان لیتا ہے
میرے سارے اِرادوں کو
کسوٹی پر پرکھتا ہے
نہ جب تک فیصلہ دیدے
ہمارادل دھڑکتا ہے
ہمیشہ دن نکلتا ہے
ہمیشہ رات ہوتی ہے
مگر اِس کے لۓ اندر کوئ
بے موسمی بیوقت کی
برسات ہوتی ہے
یہ بارش اِس کے دلکش پر کے اوپر
آگ کی طرح برستی ہے
جھلستی اِس میں اِس کی ساری کی ساری
ہی ہستی ہے
پروں کو کھول کر
آنکھوں کو اپنی بند کر کے
اوپر کو منہ اُٹھاتا ہے
مجھے محسوس ہوتا ہے
مدد کے واسطے اپنی
خدا کو یہ بُلاتا ہے
یہ اُس سے کر کے استغفار
حالِ دل سناتا ہے
Comment