شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
آرزو دیتا ہے دل کو موت کی وقتِ دعا
میری ساری خواہشوں کا یہ صلہ دیتا ہے تو
حد سے بڑھ کر سبز ہو جاتا ہے جب رنگِ زمیں
خاک میں اس نقشِ رنگیں کو مِلا دیتا ہے تو
ماند پڑ جاتی ہے جب اشجار پر ہر روشنی
گھپ اندھیرے جنگلوں میں راستا دیتا ہے تو
دیر تک رکھتا ہے تو ارض و سما کو منتظر
پھر انھیں ویرانیوں میں گُل کھلا دیتا ہے تو
تیز کرتا ہے سفر میں موجِ غم کی یورشیں
بجھتے جاتے شعلۂ دل کو ہوا دیتا ہے تو
اے منیرؔ اس رات کے افلاک پر ہونا ترا
اک حقیقت کو فسانہ سا بنا دیتا ہے تو
یاد آ کر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
آرزو دیتا ہے دل کو موت کی وقتِ دعا
میری ساری خواہشوں کا یہ صلہ دیتا ہے تو
حد سے بڑھ کر سبز ہو جاتا ہے جب رنگِ زمیں
خاک میں اس نقشِ رنگیں کو مِلا دیتا ہے تو
ماند پڑ جاتی ہے جب اشجار پر ہر روشنی
گھپ اندھیرے جنگلوں میں راستا دیتا ہے تو
دیر تک رکھتا ہے تو ارض و سما کو منتظر
پھر انھیں ویرانیوں میں گُل کھلا دیتا ہے تو
تیز کرتا ہے سفر میں موجِ غم کی یورشیں
بجھتے جاتے شعلۂ دل کو ہوا دیتا ہے تو
اے منیرؔ اس رات کے افلاک پر ہونا ترا
اک حقیقت کو فسانہ سا بنا دیتا ہے تو
Comment