اگر کسی سے مراسم بڑھانے لگتے ہیں
تیرے فراق کے دکھ یاد آنے لگتے ہیں
ہمیں ستم کا گلہ کیا کہ یہ جہاں والے
کبھی کبھی تیرا دل بھی دکھانے لگتے ہیں
سفینے چھوڑ کے ساحل چلے تو ہیں
یہ دیکھنا ہے کہ اب کس ٹھکانے لگتے ہیں
پلک جھپکتے ہی دنیا اجاڑ دیتی ہے
وہ بستیاں جنہیں بستے زمانے لگتے ہیں
فراز ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر ایک کہ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں
فراز احمد
Comment