گِلا نہیں کوئی تجھ سے جو تُو دکھائی نہ دے
وہ تیرگی ہے کہ کچھ بھی مجھے سجھائی نہ دے
بُھلا دے اے میرے گھر کی اُداس رات مجھے
کہ وحشتِ سرِ صحرا مجھے رہائی نہ دے
تیرے وصال کی صبحوں کا رنگ کیا ہو گا؟
یہ سوچنے کی فراغت شبِ جدائی نہ دے
تیرا وجود اگر ہے تو اب نقاب اُٹھا
میں تھک گیا ہُوں مجھے زخمِ نارسائی نہ دے
میں جھوٹ بول رہا ہُوں کہ معتبر ٹھہروں
جو سچ کہوں تو زمانہ میری صفائی نہ دے
رگوں سے خون جو پُھوٹے تو کوئی خط لکھوں
کہ میری آنکھ تو لکھنے کو روشنائی نہ دے
میری زباں پہ تِری مصلحت کے پہرے ہیں
میرے خدا مجھے الزامِ بے نوائی نہ دے
کوئی بھی دُشمنِ جاں ہو مجھے قبول مگر
میں اپنے مصر کا یوسف ہوں مجھ کو بھائی نہ دے
سکوتِ دشت کی ہیبت ہے یا خموشئ مرگ
خود اپنی چیخ بھی محسن مجھے سُنائی نہ دے
Comment