Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

sirf december poetry

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Re: sirf december poetry

    اور آخر میں پھر ایک نظم

    محبت کے دسمبر میں
    اچانک جیسے تپتا جون آیا ہے
    تمہارا خط نہیں آیا نہ کوئی فون آیا ہے
    تو کیا تم کھو گئے اجنبی چہروں کے جنگل میں
    مسافر مل گیا کوئی ، کسی منزل کسی پل میں
    عقیدت کے سنہرے پھول
    چپکے سے کسی نے باندھ ڈالے آ کے آنچل میں
    یکایک موڑ کوئی آگیا چاہت کی منزل میں
    خیال وعدہء برباد بھی تم کو نہیں آیا
    تو کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    میں یاد بھی تم کو نہیں آیا ؟

    Comment


    • Re: sirf december poetry


      کچھ لمحے نومبر کے
      ہم نے یوں گزارے ہیں
      موسم اسکی یادوں کے
      تصویر میں اتارے ہیں

      کپکپاتے ہونٹوں سے
      ڈگمگاتی دھڑکن سے
      ہم نے اپنے خالق سے
      بس دعا یہ مانگی ہے

      اب کی بار دسمبر میں
      جب بھی بادل اتریں تو
      بس یہی تمنا ہے

      نفرتوں کی بارش میں
      دشمنوں کی سازش میں
      بس اسی گزارش میں

      زندگی کو جینے کا
      اختیار مل جائے
      اے مرے خدا سب کو
      اپنا پیار مل جائے!!!

      .................................................. ....

      Comment


      • Re: sirf december poetry


        ابھی دسمبر کی ابتدا ہے
        ابھی ہواؤں کا راج کچھ دن رہے گا فائق
        ابھی چراغوں کے دن نہیں ہیں
        ابھی درختوں نے زرد پتوں کے سب لبادے اتارنے ہیں
        ابھی تو آنکھوں نے خواب نگری میں گھومنا ہے
        مگر کبھی تو تعبیر کے سنگ اقدس کو چومنا ہے
        ابھی خزاؤں کی حکمتوں کی حکومتیں ہیں
        ابھی بہاروں نے صحن گلشن سے دور رہنا ہے اور کچھ دن
        مگر خزاؤں کا دور کچھ دن،مگر ہواؤں کا دور کچھ دن

        Comment


        • Re: sirf december poetry

          سے کہنا
          دسمبر لوٹ آیا ہے
          ہوائیں سرد ہیں
          اور وادیاں بھی دھند میں
          گم ہیں
          پہاڑوں نے برف کی
          شال پھر سے اوڑھ رکھی ہے
          سبھی رستے تمہاری
          یاد میں پُرنم سے لگتے ہیں
          جنہیں شرفِ مسافت تھا
          وہ سارے کارڈ وہ پرفیوم وہ چھوٹی سی ڈائری
          وہ ٹیرس
          وہ چائے
          جو ہم نے ساتھ میں پی تھی
          تمہاری یاد دلاتے ہیں
          تمہیں واپس بلاتے ہیں
          اسے کہنا کہ دیکھو
          یوں ستائوں نہ
          دسمبر لوٹ آیا ہے
          سنو
          تم لوٹ آئو نا!

          Comment


          • Re: sirf december poetry


            دسمبر کی اُداس رت لوٹ آئی ہے
            نمی آنکھوں میں لئے
            اور کہہ رہی ہے مجھ سے
            کہ
            تیرے واسطے اب کی بار بھی
            میرے دامن میں
            صرف تنہائی ہے!!!

            Comment


            • Re: sirf december poetry

              تیری یادیں دسمبر کی شبوں جیسی
              جو آتی ہیں تو جانا بھول جاتی ہیں

              Comment


              • Re: sirf december poetry

                دسمبر جب بھی لوٹا ہے میرے خاموش کمرے میں
                میرے بستر پہ بکھری ہوئی کتابیں بھیگ جاتی ہیں

                Comment


                • Re: sirf december poetry

                  رات اُس نے پوچھا تھا
                  تم کو کیسی لگتی ہے
                  چاندنی دسمبر کی
                  میں نے کہنا چا ہا تھا
                  سال و ماہ کے بارے میں
                  گفتگو کے کیا معنی
                  چاہے کوئی منظر ہو
                  دشت ہو دسمبر ہو
                  جون ہو دسمبر ہو
                  دھڑکنوں کا ہر نغمہ
                  منظروں پہ بھاری ہے
                  ساتھ جب تمہارا ہو
                  دل کو اک سہارا ہو
                  ایسا لگتا ہے جیسے
                  اک نشہ سا طاری ہے
                  لیکن اُس کی قربت میں
                  کچھ نہیں کہا میں نے
                  تکتی رہ گئی مچھ کو
                  چاندنی دسمبر کی

                  Comment


                  • Re: sirf december poetry


                    ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
                    یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

                    آنگن میں اُتر آئی ہے مانوس سی خوشبو
                    یادوں کا اژدہام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

                    خاموشیوں کا راج ہے ،خزاں تاک میں ہے
                    اداسی بھی بہت عام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

                    تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
                    نئے برس کا اہتمام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

                    خُنک رت میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
                    جاڑے کی اداس شام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

                    تم آؤ تو مرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
                    نئے رُت تو سرِ بام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

                    Comment


                    • Re: sirf december poetry

                      سمبر جب بھی آتا ہے

                      دسمبر جب بھی آتا ہے
                      وہ پاگل پھر سے
                      بیتے موسموں کو یا د کرتی ہے

                      پرانے کارڈ پڑھتی ہے
                      کہ جس میں اس نے لکھا تھا
                      "میں لو ٹوں گا دسمبر میں"

                      نئےکپڑے پہنتی ہے
                      وہ سارا گھر سجاتی ہے
                      دسمبر کے ہر دن کو
                      وہ گن گن کر ِبتاتی ہے
                      جونہی 15گذرتی ہے
                      وہ کچھ کچھ ٹوٹ جاتی ہے

                      مگر پھربھی
                      پرانے البم کھول کر
                      ماضی کو بلاتی ہے

                      نہیں معلوم یہ اس کو
                      کہ بیتے وقت کی خوشیاں
                      بہت تکلیف دیتی ہیں
                      محض دل کو جلاتی ہیں

                      یونہی دن بیت جا تے ہیں
                      دسمبر لوٹ جا تا ہے
                      مگر وہ خوش فہم لڑکی
                      دوبارہ سے کیلنڈر میں
                      دسمبر کے صفحے کو موڑ کر
                      پھر سے دسمبر کے سحرمیں ڈوب جاتی ہے

                      کہ آخر اس نے لکھا تھا
                      " میں لو ٹوں گا دسمبر میں"

                      Comment


                      • Re: sirf december poetry

                        سنو دسمبر

                        سنو دسمبر
                        اسے پکارو
                        سنو دسمبر
                        اسے ملادو
                        اسے بلادو

                        اب اس سے پہلے کہ
                        سال گذرے
                        اب اس سے پہلے کہ
                        جان نکلے

                        وہی ستارہ میری لکیروں میں
                        قید کردو
                        اس آخری شب کے
                        آخری پل
                        کوئی بڑا اختتام کر دو
                        یہ زندگی ہی تمام کردو

                        سنودسمبر
                        سنو دسمبر
                        اسے بلادو
                        اسے ملادو

                        Comment


                        • Re: sirf december poetry

                          مجھے اک شخص اچھا لگتا ہے
                          اور اسے دسمبر
                          کاش میں دسمبر ہوتا

                          Comment


                          • Re: sirf december poetry

                            دسمبر آگیا ھے ۔۔۔۔۔تم کہاں ہو؟
                            دسمبر آ گیا ھے ۔۔۔۔تم کہا ں ہو ۔۔۔؟

                            د ر ختو ں پہ ہر ے پتو ں نے ا پنے ر نگ بدلے ہیں۔۔۔۔۔۔


                            کہیں قر مز ہیں پتے ا و ر کہیں بھو ر ے۔۔۔۔۔


                            کہیں ھے ر نگ د ھا نی سا۔۔۔۔۔۔


                            فلک پر با د لو ں نے د و ر تک ڈ یر ے لگا ے ہیں۔۔۔۔۔۔


                            فضا میں چا ر سُو ا یسی اُ د ا سی ھے۔۔۔۔۔


                            خز ا ں بھی جیسے میر ے دُ کھ میں شا مل ہو ۔۔۔۔۔۔۔


                            مر ے کمر ے کی تنہا ئ ۔۔۔۔۔۔


                            مر ی آ زُ ر د گی کو یو ں بڑ ھا تی ھے۔۔۔۔۔۔۔


                            حر ا ر ت جسم کی ہو تی ھے کم ۔۔۔۔۔۔


                            سر د ی کی شد ت بڑ ھتی جا تی ھے۔۔۔۔۔۔


                            مر ے بستر کی چا د ر پہ ۔۔۔۔۔۔۔


                            پڑ ے شکنو ں کے جنگل میں ۔۔۔۔۔۔


                            تمہا ر ے لمس کی خشبو پرا نی یا د کے لمحے جگا تی ھے۔۔۔۔۔۔۔


                            مر ی سا نسو ں کو د ے کر ز ند گی بید ا ر کر تی ھے۔۔۔۔۔۔۔


                            فضا میں پھر و ہی ما نو س خشبو ر قص کر تی ھے۔۔۔۔۔۔۔


                            کہا ں ہو تم ۔۔۔۔۔۔۔؟


                            تمہا ر ی ر س بھر ی با تو ں کی خشبو ۔۔۔۔۔۔۔


                            پھر سما عت میں اُ تر تی ھے۔۔۔۔۔۔۔


                            مر ے کمر ے کی تنہا ئ تمہیں و ا پس بُلا تی ھے۔


                            ا نو ر زا ہد ی

                            Comment


                            • Re: sirf december poetry



                              دسمبر اب کے آؤ تو
                              تم اس شہرِ تمنا کی خبر لانا
                              کہ جس میں جگنوؤں کی کہکشائیں جھلملاتی ہیں
                              جہاں تتلی کے رنگوں سے فضائیں مسکراتی ہیں
                              وہاں چاروں طرف خوشبو وفا کی ہے
                              اور اس کو جو بھی پوروں سے
                              نظر سے چھو گیا پل بھر مہک اٹھتا


                              دسمبر اب کے آؤ تو
                              تم اس شہرِ تمنا کی خبر لانا
                              جہاں ریت کے ذرے ستارے ہیں
                              گل و بلبل، ماو ہ انجم وفا کے استعارے ہیں
                              جہاں دل وہ سمندر ہے جس کے کئی کنارے ہیں
                              جہاں قسمت کی دیوی مٹھیوں میں جگمگاتی ہے
                              جہاں دھڑکن کی لے پر بے خودی ںغمیں سناتی ہے

                              دسمبر ہم سے نہ پوچھو
                              ہمارے شہر کی بابت
                              یہاں آنکھوں میں گزرے کارواں کی گرد ٹھری ہے
                              محبت برف جیسی ہے یہاں اور دھوپ کے کھیتوں میں اگتی ہے
                              یہاں جب صبح آتی ہے تو شب کے سارے سپنے
                              راکھ کے ڈھیر کی صورت میں ڈھلتے ہیں
                              یہاں جزبوں کی ٹوٹی کرچیاں آنکھوں میں چھبتی ہیں
                              یہاں دل کے لہو میں اپنی پلکوں کو ڈبو کر ہم سنہرے خواب بنتے ہیں
                              پھر ان خوابوں میں جیتے ہیں
                              انہیں خوابوں میں مرتے ہیں

                              دریدہ روح کو لفظوں سے سینا، گو نہیں ممکن
                              مگر پھر بھی دسمبر اب کے آؤ تو
                              تم اس شہرِ تمنا کی خبر لانا

                              Comment


                              • Re: sirf december poetry


                                ابھی دسمبر کی ابتدا ہے
                                ابھی ہواؤں کا راج کچھ دن رہے گا فائق
                                ابھی چراغوں کے دن نہیں ہیں
                                ابھی درختوں نے زرد پتوں کے سب لبادے اتارنے ہیں
                                ابھی تو آنکھوں نے خواب نگری میں گھومنا ہے
                                مگر کبھی تو تعبیر کے سنگ اقدس کو چومنا ہے
                                ابھی خزاؤں کی حکمتوں کی حکومتیں ہیں
                                ابھی بہاروں نے صحن گلشن سے دور رہنا ہے اور کچھ دن
                                مگر خزاؤں کا دور کچھ دن،مگر ہواؤں کا دور کچھ دن

                                Comment

                                Working...
                                X