آندھیوں سے کیا بچاتی پھول کو کانٹوں کی باڑ
صحن میں بکھری ہوئی تھی پتّی پتّی رات کو
کتنا بوسیدہ دریدہ پیرہن ہے زیبِ تن
وہ جو چرخہ کاتتی رہتی ہے لڑکی رات کو
صحن میں اک شور سا، ہر آنکھ ہے حیرت زدہ
چوڑیاں سب توڑ دیں دلہن نے پہلی رات کو
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچّہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
وقت تو ہر ایک در پر دستکیں دیتا رہا
ایک ساعت کے لیے جاگی نہ بستی رات کو
مرغزارِ شاعری میں گم رہا سبطِ علی
سو گئی رہ دیکھتے بیمار بیوی رات کو
Sabti Ali saba
Comment