بس رات نہیں دن کو بھی سنسان لگے ہے
یہ شہر جو ہر شہر سے گنجان لگے ہے
کرتا ہوں دل و جان سے میں پیار غموں سے
غم ہی تو مجھے زیست کا عنوان لگے ہے
معلوم نہیں توڑ کے تو کب اسے چل دے
شیشے کی طرح ہر تیرا پیمان لگے ہے
مت سوچ محبت ہے جواں دل کی شرارت
یہ جان کا اک کھیل ہے، یاں جان لگے ہے
ہر چند تمہیں لوٹ کے واپس نہیں آنا
ہر پل مجھے اس کا مگر امکان لگے ہے
ہے اس کی بدولت میرا ایمان سلامتک
افر جو مجھے دشنِ ایمان لگے ہے
آباد ہے جب اس میں تری یاد کی بستی
یہ قلب مرا کیوں مجھے ویران لگے ہے
وہ وقت کا مارا ہوا انسان ہر کوئی
اس دور میں جینا جسے آسان لگے ہے
آنکھوں سے چھلکتی ہے مسرت یہاں لیکن
ہر دل میں کسی درد کا طوفان لگے ہے
تو پیار ہے بس پیار ہے بس پیار ہے پیارے
یہ پیار ہی سعدیؔ تری پہچان لگے ہے
Comment