اک زخم بھی یاران بسمل نہیں آنے کا
مقتل میں پڑے رہیے قاتل نہیں آنے کا
اب کوچ کرو یارو صحرا سے کہ سنتے ہیں
صحرا میں اب محمل نہیں آنے کا
واعظ کو خرابے میں اک دعوت حق دی تھی
میں جان رہا تھا وہ جاہل نہیں آنے کا
بنیاد جہاں پہلے جو تھی وہی اب بھی ہے
یوں حشر تو یاران ےک دل نہیں انے کا
بت ہے کہ خدا ہے وہ، مانا ہے نہ مانوں گا
اس شوخ سے جب تک میں خود مل نہیں آنے کا
گر دل کی یہ محفل ہے، خرچا بھی ہو پھر دل کا
باہر سے تو سامان محفل نہیں انے کا
:rose
Comment