اسسلام علکیم
اج یونہی بیٹٹھے بیٹھے فراق صاحب کو پھر سے پڑھنے کو جی چاہا ۔۔ارتقا یہی ہے
کافی عرصہ پہلے ان کو پڑھ تھا لیکن اب کے دوبارہ پڑھا تو کچھ
اور ہی ذائقہ سے گزرا۔۔وقت کے ساتھ ساتھ شاعری کا مذاق بھی بہتر ہوتا جاتا
ہے۔۔کہیں نظمیں ، غزلیں جو تب یونہی سی لگتیں تھیں اب حیران ہوتا ہوں
کہ اس وقت کیوں ان کو نطر انداز کر گیا تھا
فراق صاحب حسن زیست سے محروم انسان کے غموں کو سینے سے لگائے اور درد
مندی کی صلیب کو اپنے کندھوں پر اٹھائے تمام عمر نغمہ سنجی کرتے رہے
۔یہی شعور غم ان کا فن تھا چناں چہ فرماتے ہیں
مری غزلیں، مرے کردار کا آئینہ ہیں ہم دم
مجھ ایسے دہر میں شائستہ غم کم نکلتے ہیں
ان کے نذدیک توہم پرسی، جبر و ابتداد ادمی کے ہاتھوں ادمی کا استصال یہ چیزیں انسان کی انفرادی
شخصیتوں کو گھناونا پست اور مکروہ بنا دیتی ہیں اور اس کی روح کو مسخ کر دیتی
ہیں
غم حیات وہی۔۔دور کائنات وہی
جو زندگی نہ بدل دے وہ زندگی کیا ہے
کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اٹھا
کہ یہ بلا بھی ترے عاشقوں کے سر ائی
بہت شکریہ ایک غزل فراق کی قارئین کے ذوق کے نام
خوش رہیں
جان کیپلر
Comment