Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

خزاں کی شاعری

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: خزاں کی شاعری

    پھر اُجڑی سونی گلیوں میں
    کہیں ڈھونڈو یار کا نقشِ قدم
    جب شہر خزاں میں آئے ہو
    کچھہ دور چلو تنہا تنہا

    Comment


    • #17
      Re: خزاں کی شاعری

      ہم بہت دُور آکے نکلے ہیں
      راستے ہی میں رہ گیا موسم

      دور پت جھڑ کا ہے مگر اپنی
      آنکھ میں ہے ہرا بھرا موسم

      دوسرا ختم ہوگیا شاید
      سامنے ہے جو تیسرا موسم

      سردیاں تھیں نہ گرمیاں اس میں
      یونہی گذرا خفا خفا موسم

      Comment


      • #18
        Re: خزاں کی شاعری

        پت جھڑ میں درختوں سے وفا کون کرے گا
        جو قرض تھا چھائوں کا ، ادا کون کرے گا

        اب کے تو پرندے بھی بڑی دیر سے چپ ہیں
        موسم کے بدلنے کی دعا کون کرے گا

        آتے ہوئے ہر سنگ کے بدلے میں دعائیں
        بد خواہوں سے یوں پیار بھلا کون کرے گا

        سب کھیل سمجھتے ہیں اسے چار دنوں کا
        یہ کارِ محبت ہے، سدا کون کرے گا

        کاٹے ہیں کئی لوگوں نے خود اپنے ہی پائوں
        جو ہم نے کیا ہے، وہ بتا کون کرے گا

        فیروز درِ گل پہ صبا دیتی ہے دستک
        کانٹوں کے گھروندوں پہ صدا کون کرے گا

        Comment


        • #19
          Re: خزاں کی شاعری



          پت جھڑ سے گِلہ ہے، نہ شکایت ہوا سے ہے
          پھولوں کو کچھ عجیب محبّت ہوا سے ہے

          سرشارئِ شگفتگئِ گُل کو ہے کیا خبر
          منسُوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے

          رکھا ہے آندھیوں نے ہی، ہم کو کشِیدہ سر
          ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نِسبت ہوا سے ہے

          اُس گھر میں تِیرَگی کے سِوا کیا رہے، جہاں
          دل شمع پرہیں، اور ارادت ہوا سے ہے

          بس کوئی چیز ہے، کہ سُلگتی ہے دل کے پاس
          یہ آگ وہ نہیں، جسے صُحبت ہوا سے ہے

          صرصر کو اذن ہو جو صبا کو نہیں ہے بار
          کُنجِ قفس میں زیست کی صورت ہوا سے ہے

          گُلچِیں کو ہی خرامِ صبا سے نہیں ہے خار
          اب کے تو باغباں کو عداوت ہوا سے ہے

          خوشبو ہی رنگ بھرتی ہے تصویرِ باغ میں
          بزمِ خبرمیں، گُل کی سیادت ہوا سے ہے

          دستِ شجر میں رکھے، کہ آکربکھیر دے
          آئینِ گُل میں خاص رعایت ہوا سے ہے

          اب کے بہار دیکھیے، کیا گُل کِھلائے گی
          دل دادگانِ رنگ کو، وحشت ہوا سے ہے

          Comment


          • #20
            Re: خزاں کی شاعری


            پت جھڑ کے زمانے ہیں، گم گشتہ ٹھکانے ہیں​
            ہم ظلم کے ماروں کے، ہر گام فسانے ہیں

            کب یاد نہ تم آئے، کس لمحہ نہ ہم روئے​
            تم تو نہ رہے اپنے، ہم اب بھی دوانے ہیں​

            کانٹوں پہ چلے آتے، اک بار بلاتے تو​
            معلوم تو تھا تم کو، ہم کتنے سیانے ہیں​

            اک ڈوبتی کشتی ہے، تنکے کا سہارا ہے​
            اب وصل نہیں ممکن، بس خواب سہانے ہیں​

            اک بار ملو ہم سے، کچھ بات کریں تم سے​
            معصوم محبت کے، انداز دکھانے ہیں ​

            آشفتہ سری نے تو، مجرم ہی بنا ڈالا​
            ناکردہ گناہوں کے، اب داغ مٹانے ہیں ​

            کچھ وعدے وفائوں کے، اب تک ہیں ادھورے سے​
            اے موت گلے مل لے، کچھ قرض چکانے ہیں ​

            وحشت ہے کبھی حسرت، اجلال یہ سب کیا ہے؟​
            اب رختِ سفر باندھو، یہ سارے بہانے ہیں ​

            (سید اجلال حسین

            Comment


            • #21
              Re: خزاں کی شاعری

              بیٹیاں دھن ہے پرایا اِنہیں گھر جانا ہے
              شاخ پر کِھل کے گلابوں نے بکھر جانا ہے

              ہم کہ ہیں باغ میں پت جھڑ کے بکھرتے پتّے
              کون یہ جانتا ہے کس کو کدھر جانا ہے

              ڈھل بھی سکتا ہے جو سورج ہے سروں پر سُکھ کا
              کانپ کانپ اُٹھنا ہے،یہ سوچ کے ڈر جانا ہے

              گرد ہی لکھی ہے پیڑوں کے نصیبوں میں جنہیں
              پل دو پل موسمِ باراں میں نکھر جانا ہے

              آخرِ کار دکھائی نہ وُہ دے بُھوت ہمیں
              ہم نے جس شخص کو رستے کا شجر جانا ہے

              ٭٭٭

              Comment

              Working...
              X