غُبارِ، ابر بن گیا، کمال کر دیا گیا
ہری بھری رُتوں کو میری شال کر دیا گیا
قدم قدم پہ کاسہ لے کے زندگی تھی راہ میں
سو جو بھی اپنے پاس تھا، نکال کر دیا گیا
میں زخم زخم ہو گیا، لہو وفا کو رو گیا
لڑائی چِھڑ گئی تو مُجھ کو ڈھال کر دیا گیا
گُلاب رُت کی دیویاں، نگر گُلاب کر گئیں
میں سُرخرو ہوا، اُسے بھی لال کر دیا گیا
تُو آ کے مُجھ کو دیکھ تو غُبار کے حصار میں
تِرے فراق میں، عجیب حال کر دیا گیا
وہ زہر ہے فضاؤں میں کہ آدمی کی بات کیا
ہوا کا سانس لینا بھی، محال کر دیا گیا
ہری بھری رُتوں کو میری شال کر دیا گیا
قدم قدم پہ کاسہ لے کے زندگی تھی راہ میں
سو جو بھی اپنے پاس تھا، نکال کر دیا گیا
میں زخم زخم ہو گیا، لہو وفا کو رو گیا
لڑائی چِھڑ گئی تو مُجھ کو ڈھال کر دیا گیا
گُلاب رُت کی دیویاں، نگر گُلاب کر گئیں
میں سُرخرو ہوا، اُسے بھی لال کر دیا گیا
تُو آ کے مُجھ کو دیکھ تو غُبار کے حصار میں
تِرے فراق میں، عجیب حال کر دیا گیا
وہ زہر ہے فضاؤں میں کہ آدمی کی بات کیا
ہوا کا سانس لینا بھی، محال کر دیا گیا
Comment