Re: Mara Intekhaab
یہ میرا شہر صحرا صفت۔۔!
۔
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے
یہ مرا شہر صحرا صفت دشت خو
جس کے رستوں کی مٹی مری آبرو
جس کی گلیاں لکیریں میرے بخت کی
جس کے ذرے مہ ہ مہر سے قیمتی!
۔
۔
یہ وہی شہر ہے ۔۔۔۔۔۔اجنبنی دیکھنا
جس کی چاہت کی تعزیر میں عمر بھر
میری آوارگی کے فسانے۔۔۔۔بنے
جس کی خاطر مرے ہم سخن ہمسفر
بے سبب تہمتوں کا نشانہ بنے!
جس کی بخشش کی تاثیر کے ذائقے
میری تشہیر کو تازیانے بنے
مری دیوانگی نے تراشا جنہیں
وہ سیہ پوش لمحے زمانے بنے
۔
۔
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے
جس کی جلتی ہوئی دوپہر میں سدا
خواب بنتی رہی نوجوانی مری
جس کے ہر موڑ پر راکھ کے ڈھیر میں
دفن ہوتی رہی ہر کہانی مری
۔
۔
جس کی پرہول راتوں کی محراب میں
میری غزلوں کے خورشید جلتے رہے
جس کی یخ بستہ صبحوں کے اصرار پر
میرے آنسو شرارروں میں ڈھلتے رہے
؛
‘
۔
یہ وہی شہر ہے جس کے بازار میں
بار ہا میرا پندار بیچا گیا
موسم قحط کو ٹالنے کے لیے
مرے دامن کا ہر تار بیچا گیا
÷
÷
÷
اجنبی دیکھنا۔۔۔۔۔۔دیکھنا اجنبی
اپنے صحرا صفت شہر میں اج پھر
میں دریدہ بدن میں بریدہ قبا
دربدر خواہشوں کی کٹی انگلیاں
ریزہ ریزہ ماہ و سال کے ذائقے
ہانپتے کانپتے دل کی شوریدگی
عمر بھی کی کمائی ہوئی شہرتیں
لمحہ لمحہ سلگتی زندگئ
ناچتی تہمتوں کی کھلی وحشتیں
لب پہ مجروح لفظوں کی چبھتی تھکن
تن پہ یاقوت زخموں کے تمغے لیے
سوچتا ہوں کہ ہاں۔۔۔یہ وہی شہر ہے
جس سے منسوب تھا میرا نام و نسب
میرا فن میری تخلیق میرا ادب
شورش چشم نم ۔۔۔نوحہ زیر لب
سب اسی شہر صحرا صفت کے لیے
۔
۔
۔
میں مگر اج اس شہر کی بھیڑ میں
صورت موج صحرا اکیلا بہت
میرے چہرے پہ کوئی گواہی نہیں
کچھ بھی ھاصل مرا جز تباہی نہیں
÷
÷
÷
یوں بھی ہے کل جہاں میں تھا مسند نشیں
اُس جگہ خیمہ زن اب نئے لوگ
خود سے آباد کر قریہ شب مجھے
کوئی پہچانتا ہی نہیں اب مجھے
÷
÷
÷
÷
دل میں چھبتی ہوئی درد کی لہر ہے
میرے سچ کا صلہ ساغر زہر ہے
سانس لینا یہاں جبر ہے قہر ہے
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے
یہ وہی شہر ہے÷÷۔۔۔۔۔۔!
۔
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے
یہ مرا شہر صحرا صفت دشت خو
جس کے رستوں کی مٹی مری آبرو
جس کی گلیاں لکیریں میرے بخت کی
جس کے ذرے مہ ہ مہر سے قیمتی!
۔
۔
یہ وہی شہر ہے ۔۔۔۔۔۔اجنبنی دیکھنا
جس کی چاہت کی تعزیر میں عمر بھر
میری آوارگی کے فسانے۔۔۔۔بنے
جس کی خاطر مرے ہم سخن ہمسفر
بے سبب تہمتوں کا نشانہ بنے!
جس کی بخشش کی تاثیر کے ذائقے
میری تشہیر کو تازیانے بنے
مری دیوانگی نے تراشا جنہیں
وہ سیہ پوش لمحے زمانے بنے
۔
۔
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے
جس کی جلتی ہوئی دوپہر میں سدا
خواب بنتی رہی نوجوانی مری
جس کے ہر موڑ پر راکھ کے ڈھیر میں
دفن ہوتی رہی ہر کہانی مری
۔
۔
جس کی پرہول راتوں کی محراب میں
میری غزلوں کے خورشید جلتے رہے
جس کی یخ بستہ صبحوں کے اصرار پر
میرے آنسو شرارروں میں ڈھلتے رہے
؛
‘
۔
یہ وہی شہر ہے جس کے بازار میں
بار ہا میرا پندار بیچا گیا
موسم قحط کو ٹالنے کے لیے
مرے دامن کا ہر تار بیچا گیا
÷
÷
÷
اجنبی دیکھنا۔۔۔۔۔۔دیکھنا اجنبی
اپنے صحرا صفت شہر میں اج پھر
میں دریدہ بدن میں بریدہ قبا
دربدر خواہشوں کی کٹی انگلیاں
ریزہ ریزہ ماہ و سال کے ذائقے
ہانپتے کانپتے دل کی شوریدگی
عمر بھی کی کمائی ہوئی شہرتیں
لمحہ لمحہ سلگتی زندگئ
ناچتی تہمتوں کی کھلی وحشتیں
لب پہ مجروح لفظوں کی چبھتی تھکن
تن پہ یاقوت زخموں کے تمغے لیے
سوچتا ہوں کہ ہاں۔۔۔یہ وہی شہر ہے
جس سے منسوب تھا میرا نام و نسب
میرا فن میری تخلیق میرا ادب
شورش چشم نم ۔۔۔نوحہ زیر لب
سب اسی شہر صحرا صفت کے لیے
۔
۔
۔
میں مگر اج اس شہر کی بھیڑ میں
صورت موج صحرا اکیلا بہت
میرے چہرے پہ کوئی گواہی نہیں
کچھ بھی ھاصل مرا جز تباہی نہیں
÷
÷
÷
یوں بھی ہے کل جہاں میں تھا مسند نشیں
اُس جگہ خیمہ زن اب نئے لوگ
خود سے آباد کر قریہ شب مجھے
کوئی پہچانتا ہی نہیں اب مجھے
÷
÷
÷
÷
دل میں چھبتی ہوئی درد کی لہر ہے
میرے سچ کا صلہ ساغر زہر ہے
سانس لینا یہاں جبر ہے قہر ہے
اجنبی دیکھنا یہ وہی شہر ہے
یہ وہی شہر ہے÷÷۔۔۔۔۔۔!
Comment