لیلی مجنوں ہیر رانجھا
دل شکستہ ہوں گلہ کیا مہربانوں سے کروں
کیوں زمیں والوں کا شکوہ آسمانوں سے کروں
لیلی مجنوں ہیر رانجھا درس الفت دے گے
استفادہ کیوں نہ میں ان داستانوں سے کروں
بھید کھلنے پر مرے کچھ زخم تازہ ہو گے
اپنے دل کی بات کیسے رازدانوں سے کروں
بیجلیاں گرتی رہی ہیں آشیانے پر مرے
کس لے وابستگی پھر گلستانوں سے کروں
رابطہ رکھے ہوے ہیں آج تک گلچیں سے وہ
کیا حفاظت کی توقع باغبانوں سے کروں
Comment