کچھ دیر پہلے نیند سے
.
.
.
میں جن کو چھوڑ آیا تھا شناسائی کی بستی کے وہ سارے راستے آواز دیتے ہیں
نہیں معلوم اب کس واسطے آواز دیتے ہیں
لہو میں خاک اڑتی ہے
بدن خواہش بہ خواہش ڈھے رہا ہے
اور نفس کی آمد و شد دل کی ناہمواریوں پر بین کرتی ہے
وہ سارے خواب ایک اک کر کے رخصت ہوچکے ہیں جن سے آنکھیں جاگتی تھیں
اور امیدوں کے روزن شہر آئیندہ میں کھلتے تھے
بہت آہستہ آہستہ
اندھیرا دل میں، آںکھوں میں، لہو میں، بہتے بہتے جم گیا ہے
وقت جیسے تھم گیا ہے
بس اب ایک اور شب ایک اور پل جب سارے رستے بند ہونگے
وہ پل جب سارے بندھن، کھڑکیاں،آنگن،امیدیں۔آرزوئیں،رنگ سب
آبنگ سارے خاک کا پیوند ہونگے
ادھر کچھ دن سے جانے کیوں اُسی پل کی اُسی ساعت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں
بچھڑے روٹھنے والوں کو پھر سے لوٹ آنے کی دہائی دے رہی ہیں
مگر اب کون آئے گا، پلٹ کر کون آیا ہے جنہیں آنا تھا وہ تو آئے بھی اور
کب کے رخصت ہوچکے ہیں
میں سب کچھ جانتا بھی ہوں مگر پھر بھی
مری آنکھوں میں رستہ دیکھنے کی خو اب بھی وہی ہے
تھکن سے چُور ہوں پھر بھی سفر کی آرزواب بھی وہی ہے
.
.
.
میں جن کو چھوڑ آیا تھا شناسائی کی بستی کے وہ سارے راستے آواز دیتے ہیں
نہیں معلوم اب کس واسطے آواز دیتے ہیں
لہو میں خاک اڑتی ہے
بدن خواہش بہ خواہش ڈھے رہا ہے
اور نفس کی آمد و شد دل کی ناہمواریوں پر بین کرتی ہے
وہ سارے خواب ایک اک کر کے رخصت ہوچکے ہیں جن سے آنکھیں جاگتی تھیں
اور امیدوں کے روزن شہر آئیندہ میں کھلتے تھے
بہت آہستہ آہستہ
اندھیرا دل میں، آںکھوں میں، لہو میں، بہتے بہتے جم گیا ہے
وقت جیسے تھم گیا ہے
بس اب ایک اور شب ایک اور پل جب سارے رستے بند ہونگے
وہ پل جب سارے بندھن، کھڑکیاں،آنگن،امیدیں۔آرزوئیں،رنگ سب
آبنگ سارے خاک کا پیوند ہونگے
ادھر کچھ دن سے جانے کیوں اُسی پل کی اُسی ساعت کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں
بچھڑے روٹھنے والوں کو پھر سے لوٹ آنے کی دہائی دے رہی ہیں
مگر اب کون آئے گا، پلٹ کر کون آیا ہے جنہیں آنا تھا وہ تو آئے بھی اور
کب کے رخصت ہوچکے ہیں
میں سب کچھ جانتا بھی ہوں مگر پھر بھی
مری آنکھوں میں رستہ دیکھنے کی خو اب بھی وہی ہے
تھکن سے چُور ہوں پھر بھی سفر کی آرزواب بھی وہی ہے
Comment