لبوں پہ پُھول کِھلتے ہیں کسی کے نام سے پہلے
دِلوں کے دیپ جلتے ہیں چراغِ شام سے پہلے
کبھی منظر بدلنے پر بھی قِصّہ چل نہیں پاتا
کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے
یہی تارے تمہاری آنکھ کی چلمن میں رہتے تھے
یہی سُورج نکلتا تھا تُمہارے بام سے، پہلے
دِلوں کی جگمگاتی بستیاں تاراج کرتے ہیں
یہی جو لوگ لگتے ہیں نہایت عام سے پہلے
ہوئی ہے شام جنگل میں پرندے لوٹتے ہونگے
اب اُن کو کِس طرح روکیں، نواحِ دام سے ، پہلے
یہ سارے رنگ مُردہ تھے تمہاری شکل بننے تک
یہ سارے حرف مہمل تھے تمہارے نام سے پہلے
ہُوا ہے وہ اگر مُنصف تو امجد احتیاطً ہم
سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے
امجد اسلام امجد
دِلوں کے دیپ جلتے ہیں چراغِ شام سے پہلے
کبھی منظر بدلنے پر بھی قِصّہ چل نہیں پاتا
کہانی ختم ہوتی ہے کبھی انجام سے پہلے
یہی تارے تمہاری آنکھ کی چلمن میں رہتے تھے
یہی سُورج نکلتا تھا تُمہارے بام سے، پہلے
دِلوں کی جگمگاتی بستیاں تاراج کرتے ہیں
یہی جو لوگ لگتے ہیں نہایت عام سے پہلے
ہوئی ہے شام جنگل میں پرندے لوٹتے ہونگے
اب اُن کو کِس طرح روکیں، نواحِ دام سے ، پہلے
یہ سارے رنگ مُردہ تھے تمہاری شکل بننے تک
یہ سارے حرف مہمل تھے تمہارے نام سے پہلے
ہُوا ہے وہ اگر مُنصف تو امجد احتیاطً ہم
سزا تسلیم کرتے ہیں کسی الزام سے پہلے
امجد اسلام امجد
Comment