غالب اور جنت کی خوش خیالی
غالب آزاد خیال تھے یہ حقیقیت ہر شک سے بالاتر ہے۔ ہر فرقہ ہر مسلک اور ہر مذہب سے متعلق لوگ ان کے حلقہءاحباب میں داخل تھے۔ کسی قسم کی تفریق وامتیاز کے بغیر پیش آتے تھے۔ یہ سب اپنی جگہ ان کی مسلمانی پر شک کرنا بہت بڑی زیادتی ہو گی۔ گنہگار ہونا اور مذہب یا مذہب کے کسی حصہ سے انحراف‘ دو الگ باتیں ہیں۔
اپنے کہے کی سند میں کچھ باتیں عرض کرتا ہوں:
١۔ غالب نجف اور حرمین جانے کی شدت سے خواہش رکھتے تھے۔ اس امر کا اظہار مختف جگہوں پر ملتا ہے۔ سند میں غالب کا یہ شعر ملاحظہ فرماءیں:
مقطع سلسلہءشوق نہیں ہے یہ شہر
عزم سیر نجف و طوف حرم ہے ہم کو
٢۔ بہادر شاہ ظفر نے جب حج کرنے کا قصد کیا تو غالب نے بھی ساتھ جانے کی خواہش کی۔ سند میں یہ شعر ملاحظہ ہو:
غالب! اگر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی
٣۔ ان کی پوری زندگی میں ایسا کوئ واقعہ نہیں ملتا جس سے اسلام سے انحراف واضح ہوتا ہو۔ ان کی زبان سے نکلا کوئ لفظ بھی ریکارذ میں نہیں ملتا جس سے اسلام سے پھرنے یا اس ذیل میں انحراف کا پہلو سامنے آتا ہو۔
لفظ جب کسی دوسری زبان میں مہاجرت اختیار کرتے ہیں تو وہ اپنی اصل زبان کا کلچر وغیرہ برقرار نہیں رکھ پاتے۔ لفظ حور عربی ہے‘ یہ عربی میں جمع ہے اور جنت کی عورت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو میں یہ واحد استغمال ہوتا ہے اور اس سے مراد خوبصورت عورت لی جاتی ہے۔ ایک ہی کیا ہزاروں لفظ دوسری زبانوں میں جا کر مفاہیم استعمال تلفظ ہیءت وغیرہ کھو دیتے ہیں۔ وٹران و سپٹران کس انگریزی کے لفظ ہیں۔ لفظ ہند کے عربی فارسی اور اردو مفاہیم قطعی الگ سے ہیں۔ ہونسلو کس عربی کا ہے۔ فرمایے عینک کس زبان کا لفظ ہے۔ یہ عین اور نک سے ترکیب پایا ہے۔ قلفی کوئ لفظ ہی نہیں لیکن مستعمل ہے۔ تابعدار کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ اپنی حقیقت میں غلط نہیں۔ میں اس ذیل میں کئ مثالیں دے سکتا ہوں۔
قرآن مجید کا ہر لفظ‘ اس پر ایمان رکھنے والوں کے لیے ہر شک سے بالا ہے تو پھر غالب کس طرح کہتے ہیں:
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے
قرآن میں جنت کے حوالہ سے جو بھی کہا گیا ہے‘ واضح کہا گیا ہے۔ کسی سطع پر ابہام پیدا نہیں ہوتا۔ جب ابہام نہیں تو غالب اس طرح کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ غالب کی مسلمانی مشکوک نہیں۔ آدھی مسلمانی بھی اس طرح کی باتیں نہیں کرتی۔
یہ قرآن مجید والی جنت مراد نہیں۔ یہ شعر غالبا 1821 کا ہے اور یہ دور شاہ عالم ٹانی کا ہے۔ شاہ عالم ثانی شاعر تھا اور آفتاب تخلص کرتا تھا۔ اس عہد کے شعرا‘ خود آفتاب کے ہاں لفظ جنت کئ معنوں میں باندھا گیا ہے۔ غالب کے ہاں ان معروضات کے تناظر میں لفظ جنت کے معنوں دریافت کر لیں:
١۔ یہ شدید افراتفری کا دور تھا۔ اندرونی بیرونی قوتیں برسرپیکار تھیں۔ اس کے ساتھ ہی اصلاح احوال کے داعی بھی کوشاں تھے۔
لوگ امید کر رہے تھے کہ یہ خطہ پھر سے امن و سکون کا گہوارہ بن جاءے گا۔ لفظ جنت امن و سکون کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے۔
٢۔ مغربی تہذیب اور مغرب والوں کو بھی سکون اور ترقی کا منبع سمجھا گیا ہے اور یہ خوش فہی آج بھی موجود ہے۔
٣۔برصغیر بلاشبہ جتت نظیر خطہ ارض ہے۔ وساءل قدرت‘ مین پاور‘ ذہانت‘ محنت‘ کوشش‘ موسموں وغیرہ کے حوالہ سے کوئ خطہ اس کے جوڑ کا نہیں۔ پوری دنیا کو غلہ سبزیات یہاں سے فراہم ہوتی تھیں اور آج بھی صورت مختلف نہیں۔ اس دور کے حالات میں اسے جنت نظیر کہنا خوش طبعی سے زیادہ بات نہ تھی۔
٤۔ اہل صوف کے ہاں جنت کے معنی الگ سے ہیں۔ حالات سے تنگ ہو کر لوگ دنیا تیاگنے پر مجبور ہو گءے تھے۔ گویا تصوف کی آغوش ہی باقی رہ گئ تھی۔
درج بالا معروضات کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غالب اپنے اس شعر میں کس جنت کو خوش خیالی کا نام دے رہے ہیں۔غالب کے شعر کی یہی شرح بنتی ہے‘ مجھے قطعا اصرار نہیں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ ان توجہحات کی روشنی میں غالب کی فکر تک رسائ کی کوئ راہ نکل آءے۔
Comment