اسلام علکیم۔۔۔ایک بہت ہی خاص تحریر کے ساتھ ھاضر ہوں بس اسے پڑھ لئجئے گا ۔۔۔۔یہ پوسٹ بہت سے خاص دوستوں کے نام۔۔ایس اے زیڈ، بانیاز خان، جمیل، عابد عنایت، کرسٹل ،سارہ، اور لاسٹ بٹ ناٹ لیسٹ نصرت کے نام۔۔۔
خوش رہیں
آواز
دنیا میں ہمشیہ سے کچھ ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے انسانوں کو انسانوں س بحث اور گفت گو سے روکنا چاہا۔۔۔۔ جتنی زبانیں ہیں اتنی ہی باتیں ہیں اور یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔۔اب یہ کیوں کہے کہ سننے والے بس میری ہی باتیں سنیں اور باقی ہر طرف سے کان بند کر لیں۔۔۔دیکھو سماعت کے دروازوں پہ قفل نہ لگاو اور سنو۔۔ہونٹوں کی دہلیز پر پہرا نہ بھٹائو۔۔
لوگوں میں ایک خواہش پائی جاتی ہے۔۔وہ چاہتے ہیں کہ چیزوں کے بارے میں حتمی فیصلے صادر کرتے رہیں اور انہیں کوئی نہ ٹوکے۔۔۔یہ بڑی سچی خواہش ہے پر اس میں بڑی برائی ہے۔یہ ایک سعادت ہے جو بس دیوتاوں ہی کو نصیب ہو سکتی ہے۔جب بعض انسانوں نے اس کی خواہش کی تو وہ خؤد بھی ہلاکت میں پڑے اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالا ہے۔۔۔
انسانیت کی سب سے بڑی نیکی دانائی ہے اور دانائی کا سب سے اچھا وظیفہ کلام۔۔۔۔کلام اپنے عالم استراحت میں خیال ہے اور عالم بیداری میں آواز۔۔۔میں کائنات کے بیکراں سکوت اور استغراق میں اپنی آواز کے سوا کیا ہوں ؟ ہم وہاں تک ہیں جہاں تک ہماری آواز جاتی ہے اور ہم آواز کے ماورا معدوم ہیں اور کیا ابدی سکوت میں فنا ہوجانے والا نہیں ہے۔؟پس ہمیں بولنے دو یہاں تک کے موت ہمیں خاموش کر دے۔۔۔کہنے والا کہتا ہے کہ مجھے ہر بات کہنے دو کہ میں جو باتیں نہ کہہ سکا وہ میرے بدن میں زہر بن کر پھیل گئیں۔۔۔
ان لوگوں کو شک اور شہبے کی نظر سے دیکھا جائے گا جو خود تو بولے چلے جاتے ہیں اور دوسروں کو بولنے نہیں دیتے۔۔ ان کو بولنا ناگوار ہی گزرے گا چاہے وہ ابدی سعادتوں کی بشارت دینے والے ہی کیوں نہ ہوں۔۔دیکھو یہ زمین آج تک کسی ایسے گروہ کے تلووں سے مس نہیں ہوئی جس نے اپنی جھولی میں دنیا کے ساری سچائیوں کو اکھٹا کیا ہو۔۔اگر ایسا ہوتا تو زمانے کی گرد ابد میں بکھرتا ڈولتا بھٹکتا انسان اس قدر محروم اور بدنصیب نہ ٹھہرتا۔۔یہ تو زندگی کی بدبختی ہے کہ اس کی سچائیاں مختلف زمانوں، زمینوں، زبانوں اور ذہنوں میں بکھری ہوئی ہیں۔۔کیا ہی اچھا ہوتا جو ساری صداقتیں محلے کے اس سن رسیدہ خردہ فروش کے یہاں سے مل جایا کرتیں جو دن بھر لوگوں سے معاملت کرتا ہے اور رات کو اپنی دکان کے بیٹھ کر ہم سنوں کو بستیوں کے قصے اور شہر بھر کی خبریں سناتا ہے۔
سب کو اجازت دو کہ وہ معرض گفتار میں لفظ و بیاں کی جھولیاں خالی کر دیں تاکہ ان کی متاع کو دیکھا جائے اور پرکھا جائے اور پھر کہنے والے یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے موتیوں کو بھی کوئی مشتری نہ ملا اور دوسروں کے مونگے بھی موتیوں کے مول بک گئے۔۔دانش اور بصیرت کی بہت قلیل متاع ہمارے ھصے میں آئی ہے اور اگر اس میں سے بھی کوئی حصہ بے زبانی اور خاموشی کے کھتے میں پڑا رہ جائے تو بڑا نقصان ہوگا۔۔۔ہاں! کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بولتے ہیں فساد پھیلاتے ہیں ر یہ نہ بھولو کہ جو بول کر فساد پھیلاتے ہیں اگر وہ خاموش رہیں تو دس گنا فساد پھیلایں۔۔ روح کے تمام روزنوں اور روشن دانوں کو کھلا رہنے دو اظہار کو صحرا کی ہوائوں اور سمندر کے پانیوں کی طرح آزاد پہونا چاہیے۔۔۔بولنے والے سکھانے والے ہیں اور چپ رہنے والے چھپانے والے اور جو تمہارے ڈر سے چپ ہو گئے ہیں، وہ کبھی نہ کبھی ضرور بولیں گے اور اس بار ان کی زبانوں پر تمارے خلاف کوئی بے زنہار حجت ہوگی۔۔۔پس بولنے وار سننے والوں کو رولنے اور تولنے دو۔۔۔
ہمارے یہاں کچھ پابندیاں ہیں جو صدیوں پہلے عائد کی گئی تھیں اور ی عوام الناس ہیں جو ان پابندیوں کے خلاف ااواز بلند کرنے والے کو مجرم گردانتے ہیں حالاں کہ ان پابندیوں کی بامشقت سزا سہنے والے خود یہی ہیں۔۔اسی طرح یہاں کے خواص میں اظہار کی آزادی کے خلاف بھی ایک رجہان پایا جاتا ہے اور کچھ دن پہلے اس کا اظہار بھی ہوا۔۔ یہ رجہان ظاہر کرتا ہے کہ بعض لوگ حقیقتوں سے ڈرتے ہیں اور ان میں اعتماد کی کمی ہے پر ماننا چاہیے کہ حقیقتوں کا ڈر اور اعتماد کی کمی چند آدمیوں کا مسئلہ ہے اسے پوری قوم، کے اعصاب پر مسلط نیں کیا جساکتا۔۔۔۔جو لوگ رائے اور اظہار کی آزادی اور آواز کے خلاف سوچتے ہیں وہ زندگی اور اس کی روح کے ساتھ بد عہدی کرتے ہیں۔۔
اواز اور فقط آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی شخص ان دن کا انتظار کر رہا ہے جب وجود آواز میں تحلیل ہو جائے گا۔۔۔وہ شخص کہہ رہا ہے کاش میرا بدن اواز کی ایک لہر بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر تو سکوت اور ہاہوت کا تیرہ و تار سمندر ہے اور پھر تو کچھ بھی نہیں۔۔
خوش رہیں
آواز
دنیا میں ہمشیہ سے کچھ ایسے لوگ رہے ہیں جنہوں نے انسانوں کو انسانوں س بحث اور گفت گو سے روکنا چاہا۔۔۔۔ جتنی زبانیں ہیں اتنی ہی باتیں ہیں اور یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔۔اب یہ کیوں کہے کہ سننے والے بس میری ہی باتیں سنیں اور باقی ہر طرف سے کان بند کر لیں۔۔۔دیکھو سماعت کے دروازوں پہ قفل نہ لگاو اور سنو۔۔ہونٹوں کی دہلیز پر پہرا نہ بھٹائو۔۔
لوگوں میں ایک خواہش پائی جاتی ہے۔۔وہ چاہتے ہیں کہ چیزوں کے بارے میں حتمی فیصلے صادر کرتے رہیں اور انہیں کوئی نہ ٹوکے۔۔۔یہ بڑی سچی خواہش ہے پر اس میں بڑی برائی ہے۔یہ ایک سعادت ہے جو بس دیوتاوں ہی کو نصیب ہو سکتی ہے۔جب بعض انسانوں نے اس کی خواہش کی تو وہ خؤد بھی ہلاکت میں پڑے اور دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالا ہے۔۔۔
انسانیت کی سب سے بڑی نیکی دانائی ہے اور دانائی کا سب سے اچھا وظیفہ کلام۔۔۔۔کلام اپنے عالم استراحت میں خیال ہے اور عالم بیداری میں آواز۔۔۔میں کائنات کے بیکراں سکوت اور استغراق میں اپنی آواز کے سوا کیا ہوں ؟ ہم وہاں تک ہیں جہاں تک ہماری آواز جاتی ہے اور ہم آواز کے ماورا معدوم ہیں اور کیا ابدی سکوت میں فنا ہوجانے والا نہیں ہے۔؟پس ہمیں بولنے دو یہاں تک کے موت ہمیں خاموش کر دے۔۔۔کہنے والا کہتا ہے کہ مجھے ہر بات کہنے دو کہ میں جو باتیں نہ کہہ سکا وہ میرے بدن میں زہر بن کر پھیل گئیں۔۔۔
ان لوگوں کو شک اور شہبے کی نظر سے دیکھا جائے گا جو خود تو بولے چلے جاتے ہیں اور دوسروں کو بولنے نہیں دیتے۔۔ ان کو بولنا ناگوار ہی گزرے گا چاہے وہ ابدی سعادتوں کی بشارت دینے والے ہی کیوں نہ ہوں۔۔دیکھو یہ زمین آج تک کسی ایسے گروہ کے تلووں سے مس نہیں ہوئی جس نے اپنی جھولی میں دنیا کے ساری سچائیوں کو اکھٹا کیا ہو۔۔اگر ایسا ہوتا تو زمانے کی گرد ابد میں بکھرتا ڈولتا بھٹکتا انسان اس قدر محروم اور بدنصیب نہ ٹھہرتا۔۔یہ تو زندگی کی بدبختی ہے کہ اس کی سچائیاں مختلف زمانوں، زمینوں، زبانوں اور ذہنوں میں بکھری ہوئی ہیں۔۔کیا ہی اچھا ہوتا جو ساری صداقتیں محلے کے اس سن رسیدہ خردہ فروش کے یہاں سے مل جایا کرتیں جو دن بھر لوگوں سے معاملت کرتا ہے اور رات کو اپنی دکان کے بیٹھ کر ہم سنوں کو بستیوں کے قصے اور شہر بھر کی خبریں سناتا ہے۔
سب کو اجازت دو کہ وہ معرض گفتار میں لفظ و بیاں کی جھولیاں خالی کر دیں تاکہ ان کی متاع کو دیکھا جائے اور پرکھا جائے اور پھر کہنے والے یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمارے موتیوں کو بھی کوئی مشتری نہ ملا اور دوسروں کے مونگے بھی موتیوں کے مول بک گئے۔۔دانش اور بصیرت کی بہت قلیل متاع ہمارے ھصے میں آئی ہے اور اگر اس میں سے بھی کوئی حصہ بے زبانی اور خاموشی کے کھتے میں پڑا رہ جائے تو بڑا نقصان ہوگا۔۔۔ہاں! کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بولتے ہیں فساد پھیلاتے ہیں ر یہ نہ بھولو کہ جو بول کر فساد پھیلاتے ہیں اگر وہ خاموش رہیں تو دس گنا فساد پھیلایں۔۔ روح کے تمام روزنوں اور روشن دانوں کو کھلا رہنے دو اظہار کو صحرا کی ہوائوں اور سمندر کے پانیوں کی طرح آزاد پہونا چاہیے۔۔۔بولنے والے سکھانے والے ہیں اور چپ رہنے والے چھپانے والے اور جو تمہارے ڈر سے چپ ہو گئے ہیں، وہ کبھی نہ کبھی ضرور بولیں گے اور اس بار ان کی زبانوں پر تمارے خلاف کوئی بے زنہار حجت ہوگی۔۔۔پس بولنے وار سننے والوں کو رولنے اور تولنے دو۔۔۔
ہمارے یہاں کچھ پابندیاں ہیں جو صدیوں پہلے عائد کی گئی تھیں اور ی عوام الناس ہیں جو ان پابندیوں کے خلاف ااواز بلند کرنے والے کو مجرم گردانتے ہیں حالاں کہ ان پابندیوں کی بامشقت سزا سہنے والے خود یہی ہیں۔۔اسی طرح یہاں کے خواص میں اظہار کی آزادی کے خلاف بھی ایک رجہان پایا جاتا ہے اور کچھ دن پہلے اس کا اظہار بھی ہوا۔۔ یہ رجہان ظاہر کرتا ہے کہ بعض لوگ حقیقتوں سے ڈرتے ہیں اور ان میں اعتماد کی کمی ہے پر ماننا چاہیے کہ حقیقتوں کا ڈر اور اعتماد کی کمی چند آدمیوں کا مسئلہ ہے اسے پوری قوم، کے اعصاب پر مسلط نیں کیا جساکتا۔۔۔۔جو لوگ رائے اور اظہار کی آزادی اور آواز کے خلاف سوچتے ہیں وہ زندگی اور اس کی روح کے ساتھ بد عہدی کرتے ہیں۔۔
اواز اور فقط آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی شخص ان دن کا انتظار کر رہا ہے جب وجود آواز میں تحلیل ہو جائے گا۔۔۔وہ شخص کہہ رہا ہے کاش میرا بدن اواز کی ایک لہر بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر تو سکوت اور ہاہوت کا تیرہ و تار سمندر ہے اور پھر تو کچھ بھی نہیں۔۔
Comment