اسلام علکیم
امید کرتاہوں سب بخریت ہونگے۔۔یہ تحریر کل پوسٹ کرنی تھی لیکن کچھ نجی مصروفیت کی بنا پر راولپنڈی جا رہا ہوںً۔۔ دو دن شاید میں نیٹ پہ نہ آسکوں تو اج ہی پوسٹ کر رہا۔۔
خوش رہیں
ڈاکٹر فاسٹس۔۔
اخری ملہت
وقت نے ہمارے باب میں اپنا فیصلہ صادر کر دیا۔۔ہم نے شکست کھائی اور پھر کیسی شکست۔۔ایسی شکست تو دشمنوں کو بھی نصیب نہ ہو۔۔ہمارے سر جھک گئے جھکا دئے گئے جھکوا دئے گئے ہمارے پرچم گر گئے، گرا دئے گئے، گروا دیے۔۔۔تمہیں تمہارے راہمائوں نے گم راہ حکمرانوں نے روسیاہ اور دولت مندوں نے تباہ کیا۔۔تمہاری بستیوں میں نیکی اور بدی کی تمیز اٹھ گئی تھی۔۔ عدل و انصاف کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہ تھا، تمہارے سوداگروں منصب داروں اور حکم رانوں نے مشرقی بنگال و اپنی حرص و ہوس کی چراگاہ اور اپنی چیرہ دستیوں کی ازمائیش گاہ بنایا اور واں کے لوگوں کے احتجاج پہ کان نہ دھرے
بستیوں میں غصے بوئے گئے سو انتقام کاٹا گیا کیا ی سب اچانک ہوا؟ مگر ہوش کسے تھا کہنے والوں کی کون سنتا ہے۔۔پاکتسان کی بیماریوں کے علاج کی بات، پاکستان کے نظریے کے خلاف سمجھی گئی۔۔آسمان پرداز سیاست کے بد باطن مفتیوں نے فتنہ انگز فتوے دیے۔۔اس ملک کے بانیوں کی نسل کے امانت فروش سیاست دانوں نے غابنوں اور غاضبوں کی دلالی کی۔۔اور یہاں بھی فتنے پھلائے اور وہاں بھی۔۔۔
تمہارے ہوس پیشہ اور فرعون اندیشہ آمروں اور امیروں نے اپنی بد مستی میں ان بے قصور مجبور اور محصور لوگوں کے انجام کو بھی نظر میں نہ رکھا جو وہاں آباد تھے بلکہ انہیں اپنی اشتعال انگیز سیاست میں ملوث کا اور ان سے وہ باتیں کہلوائیں جو ما حول اور ناراض مقامیوں کو اور غصہ دلائیں۔۔سو وہاں جب بھی ظالموں کے خلاف غیظ و غضب بھڑکا تو سب سے پہلے یہ خون گرفتہ گروہ ہی اس کا نشانہ بنا۔۔ یہ ایسی بدنام اور بد انجام سیاست تھی کہ اس کے باعث مظلوم لوگ تک ظالم کہلائے اور مقتول تک قاتل قرار پائے۔۔ اسی سایست کے نتیجے میں اخر کار ہم پر بدکاروں اور لفنگوں نے حکومت کی اور طوائفوں اور ان کے دھگڑوں اور دلالوں نے ہمارے معاملات طے کئے۔۔
نخاب کے بعد حکم رانوں کی بدنیتی کے خلاف وہاں احتجاج بھڑکا اور وہاں کے بد باطن خطیبوں نے ًمحروم عوام کو گم راہ کر کے علاقوں میں اور لہجوں کے خلاف اور بھی نفرت پھیلائی اور انتقام کی آگ بھڑکائی تو زمین کا یہی بدنصیب گروہ اُس آگ کا ایندھن بنا۔۔
ہم مشرقی پاکستان میں روند ڈالے گئے ہماری سرحدیں ہمارے خون سے لہولہان ہو گئیں اور پھر ہم سے ہتھیار ڈلوائے گئے ۔۔۔۔یہ ہتھیار اتنی بڑی فوج نے ڈالے جس ککے ذریعے ملک فتح کئے جا سکتے تھے۔۔ہمارے لوگ وہاں ابھی بھی مرگ و ہلاکت کے گھیرے میں ہیں ہمارے لاکھوں آدمی جو مار ڈالے گئے ان پر آنسو بہانا بھی شاید خلاف مصلحت ہے۔۔
ہائے وہ بدنصیب موت جس کی تعزیت بھی نہ کی جاسکی۔۔ہائے ہلاکتوں کے ھصار میں گھرے وئے بد بخت جنہیں تسکین پہنچانا بھی ہمارے بس میں نیں۔۔۔
یہ تھی ہماری سرگزشت جو اس حرام کار اور ہلاکت انگیز سیاست کے قلم سے رقم ہوئی ۔جسے مذہب کی طرح مقدس قرار دیا گیا تھا۔
اب تو ہوش میں اجاو اب تو فتنہ پرور باتیں مت کرو۔۔ اب تو وہ حرکتیں چھوڑ دو جنہوں نے تمارے وجود کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے جو رہ گیا اسی کو بچا لو یہ اخری فرصت ہے یہ اخری مہلت ہے یہ بہترین مہلت مہلت ہے۔ اس مہلت کو رائگاں نہ جانے دو اب تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ مہلت بھی رائگاں چلی گئی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔۔تم زمانے کے معتوب و مغضوب گروہ ہو ایک معتوب و مغضوب گروہ کو راتوں اور دنوں کے ساھ نخرے کرنے کا کائی ھق نہیں
تم چاہو تو حالات کا رخ موڑ سکتے ہو اور دیکھو حالات بھی تمہارے لیے سازگار ہیں اٹھو اور اس معاشرے کی تعمیر کے لیے کمر بستہ ہو جاو جس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہی تمارے مقدس راہنمائوں کا وتیرہ رہا ہے۔۔ مساوات کا معاشعرہ محنت کشوں کے اقتدار اعلی کا ماشعرہ۔۔رہ زنوں سے ہوشیار رہو اور فتنہ انگیز خطیبوں کے بہکاوے میں نہ او۔۔ان کا منتر چل گیا تو پھر تم صفحہ تاریخ سے حرف غلط کی طرح مٹ جاو گے۔۔غلطیوں سے بچو اور غلطیاں کرنے والوں کو سختی سے ٹوکو خواہ کوئی بھی ہو۔اپنی راہ کو دشوار نہ بنائو اور نہ کسی دوسرے کو اس کی جازت دو یہاں تک کہ وقت تمہیں یہ مژدہ سنائے کہ لو تم منزل تک پہنچ گئے۔
پاکتسان زندہ باد
:rose
امید کرتاہوں سب بخریت ہونگے۔۔یہ تحریر کل پوسٹ کرنی تھی لیکن کچھ نجی مصروفیت کی بنا پر راولپنڈی جا رہا ہوںً۔۔ دو دن شاید میں نیٹ پہ نہ آسکوں تو اج ہی پوسٹ کر رہا۔۔
خوش رہیں
ڈاکٹر فاسٹس۔۔
اخری ملہت
وقت نے ہمارے باب میں اپنا فیصلہ صادر کر دیا۔۔ہم نے شکست کھائی اور پھر کیسی شکست۔۔ایسی شکست تو دشمنوں کو بھی نصیب نہ ہو۔۔ہمارے سر جھک گئے جھکا دئے گئے جھکوا دئے گئے ہمارے پرچم گر گئے، گرا دئے گئے، گروا دیے۔۔۔تمہیں تمہارے راہمائوں نے گم راہ حکمرانوں نے روسیاہ اور دولت مندوں نے تباہ کیا۔۔تمہاری بستیوں میں نیکی اور بدی کی تمیز اٹھ گئی تھی۔۔ عدل و انصاف کے درمیان کوئی امتیاز باقی نہ تھا، تمہارے سوداگروں منصب داروں اور حکم رانوں نے مشرقی بنگال و اپنی حرص و ہوس کی چراگاہ اور اپنی چیرہ دستیوں کی ازمائیش گاہ بنایا اور واں کے لوگوں کے احتجاج پہ کان نہ دھرے
بستیوں میں غصے بوئے گئے سو انتقام کاٹا گیا کیا ی سب اچانک ہوا؟ مگر ہوش کسے تھا کہنے والوں کی کون سنتا ہے۔۔پاکتسان کی بیماریوں کے علاج کی بات، پاکستان کے نظریے کے خلاف سمجھی گئی۔۔آسمان پرداز سیاست کے بد باطن مفتیوں نے فتنہ انگز فتوے دیے۔۔اس ملک کے بانیوں کی نسل کے امانت فروش سیاست دانوں نے غابنوں اور غاضبوں کی دلالی کی۔۔اور یہاں بھی فتنے پھلائے اور وہاں بھی۔۔۔
تمہارے ہوس پیشہ اور فرعون اندیشہ آمروں اور امیروں نے اپنی بد مستی میں ان بے قصور مجبور اور محصور لوگوں کے انجام کو بھی نظر میں نہ رکھا جو وہاں آباد تھے بلکہ انہیں اپنی اشتعال انگیز سیاست میں ملوث کا اور ان سے وہ باتیں کہلوائیں جو ما حول اور ناراض مقامیوں کو اور غصہ دلائیں۔۔سو وہاں جب بھی ظالموں کے خلاف غیظ و غضب بھڑکا تو سب سے پہلے یہ خون گرفتہ گروہ ہی اس کا نشانہ بنا۔۔ یہ ایسی بدنام اور بد انجام سیاست تھی کہ اس کے باعث مظلوم لوگ تک ظالم کہلائے اور مقتول تک قاتل قرار پائے۔۔ اسی سایست کے نتیجے میں اخر کار ہم پر بدکاروں اور لفنگوں نے حکومت کی اور طوائفوں اور ان کے دھگڑوں اور دلالوں نے ہمارے معاملات طے کئے۔۔
نخاب کے بعد حکم رانوں کی بدنیتی کے خلاف وہاں احتجاج بھڑکا اور وہاں کے بد باطن خطیبوں نے ًمحروم عوام کو گم راہ کر کے علاقوں میں اور لہجوں کے خلاف اور بھی نفرت پھیلائی اور انتقام کی آگ بھڑکائی تو زمین کا یہی بدنصیب گروہ اُس آگ کا ایندھن بنا۔۔
ہم مشرقی پاکستان میں روند ڈالے گئے ہماری سرحدیں ہمارے خون سے لہولہان ہو گئیں اور پھر ہم سے ہتھیار ڈلوائے گئے ۔۔۔۔یہ ہتھیار اتنی بڑی فوج نے ڈالے جس ککے ذریعے ملک فتح کئے جا سکتے تھے۔۔ہمارے لوگ وہاں ابھی بھی مرگ و ہلاکت کے گھیرے میں ہیں ہمارے لاکھوں آدمی جو مار ڈالے گئے ان پر آنسو بہانا بھی شاید خلاف مصلحت ہے۔۔
ہائے وہ بدنصیب موت جس کی تعزیت بھی نہ کی جاسکی۔۔ہائے ہلاکتوں کے ھصار میں گھرے وئے بد بخت جنہیں تسکین پہنچانا بھی ہمارے بس میں نیں۔۔۔
یہ تھی ہماری سرگزشت جو اس حرام کار اور ہلاکت انگیز سیاست کے قلم سے رقم ہوئی ۔جسے مذہب کی طرح مقدس قرار دیا گیا تھا۔
اب تو ہوش میں اجاو اب تو فتنہ پرور باتیں مت کرو۔۔ اب تو وہ حرکتیں چھوڑ دو جنہوں نے تمارے وجود کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے جو رہ گیا اسی کو بچا لو یہ اخری فرصت ہے یہ اخری مہلت ہے یہ بہترین مہلت مہلت ہے۔ اس مہلت کو رائگاں نہ جانے دو اب تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ مہلت بھی رائگاں چلی گئی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔۔تم زمانے کے معتوب و مغضوب گروہ ہو ایک معتوب و مغضوب گروہ کو راتوں اور دنوں کے ساھ نخرے کرنے کا کائی ھق نہیں
تم چاہو تو حالات کا رخ موڑ سکتے ہو اور دیکھو حالات بھی تمہارے لیے سازگار ہیں اٹھو اور اس معاشرے کی تعمیر کے لیے کمر بستہ ہو جاو جس کے راستے میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہی تمارے مقدس راہنمائوں کا وتیرہ رہا ہے۔۔ مساوات کا معاشعرہ محنت کشوں کے اقتدار اعلی کا ماشعرہ۔۔رہ زنوں سے ہوشیار رہو اور فتنہ انگیز خطیبوں کے بہکاوے میں نہ او۔۔ان کا منتر چل گیا تو پھر تم صفحہ تاریخ سے حرف غلط کی طرح مٹ جاو گے۔۔غلطیوں سے بچو اور غلطیاں کرنے والوں کو سختی سے ٹوکو خواہ کوئی بھی ہو۔اپنی راہ کو دشوار نہ بنائو اور نہ کسی دوسرے کو اس کی جازت دو یہاں تک کہ وقت تمہیں یہ مژدہ سنائے کہ لو تم منزل تک پہنچ گئے۔
پاکتسان زندہ باد
:rose
Comment