Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    السوال : صوٍفیاء کے نزدیک علم الیقین اس یقین سے عبارت ہے جو کہ اثر سے مؤثر پر استدلال سے حاصل ہو اور چونکہ یہ معنی اہل نظر اور اہل استدلال کو بھی میسر ہے تو صوفیاء کے علم الیقین میں کیا فرق ہوتا ہے اور صوفیاء کا علم الیقین کشف و شہود میں کیوں داخل ہوتا ہے اور علماء کا علم الیقین کس وجہ سے فکر و نظر کی تنگی سے باہر نہیں آتا ؟؟؟؟
    الجواب :جاننا چاہیے کہ دونوں جماعتوں کے علم الیقین میں اثر کا شہود لازم ہے تاکہ اس جگہ سے مؤثر کا سراغ لگایا جاسکے جو کہ غیر مشھود ہے ۔
    خلاصہ کلام یہ کہ وہ تعلق جو کہ اثر اور مؤثر کہ درمیان حاصل ہے اور اثر کہ وجود سے مؤثر کہ وجود تک پہنچنے کا سبب ہے ۔ صوفیا کہ علم الیقین میں وہ تعلق بھی مشھود و مکشوف ہے ۔اور اہل استدلال کہ علم الیقین میں وہ واسطہ نظری ہے جو کہ فکر و دلیل کا محتاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔
    ۔۔۔۔۔پس پہلی جماعت کا یقین کشف و شہود میں داخل ہوتا ہے اور دوسری جماعت کا یقین استدلال کی تنگی سے باہر نہیں آتا ۔اور صوفیاء کے علم الیقین میں استدلال کا اطلاق ظاہراور صورت پر مبنی ہے جو کہ اثر سے مؤثر تک انتقال کو متضمن ہے اور حقیقت میں کشف و شہود ہے۔
    برخلاف علماء کے علم الیقین کے کہ وہ حقیقتا استدلالی ہے ۔اور چونکہ یہ باریک فرق اکثر لوگوں پر پوشیدہ رہا، تو ناچار وہ مرتبہ حیرت میں پڑے ہوئے ہیں ۔اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نارسائی کیو جہ سے بعض بزرگوں پر اعتراض کی زبان دراز کرلی ہے ۔جنہوں نے صوفیاء کے علم الیقین میں اثر سے موثر پر استدلال سے تفسیر کی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ان کو حقیقت الامر کی اطلاع نہیں ہے ۔ اور اللہ حق کو حق کرتا ہے اور وہی رستے کی راہنمائی کرتا ہے ۔
    مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ حصہ ہشتم دفتر سوم

    نوٹ : اسی بات کو مشھور دانشور و فلسفی احمد جاویدصاحب نے اپنے انداز میں کچھ اس طرح سے بیان فرمایا کہ ۔۔۔۔۔
    پہلے اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ صوفی ایپسٹیم یعنی صوفیاء کا نظام العلم دین سے دین کی ترجمانی کرنے والے دیگر اسالیب علم سے مختلف ہے۔
    ان دونوں اسالیب میں بنیادی بنائے اختلاف یہ ہے کہ صوفیا ء کے نزدیک معنی حضور کا نام ہے۔ یعنی کسی بیان کا معنی حضور پیدا کرے گا شعور میں،اور جو دوسرا اپیسٹیم ہے یعنی نان صوفی وہ انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرے گا ۔یعنی ایک بیان ایک شعور میں انڈراسٹینڈنگ پیدا کررہا ہے جبکہ وہی بیان ایک دوسرے شعور میں جو کہ صوفی ہے اس میں پریزنس پیدا کررہا ہے ۔
    اسکی مزید تشریح جاوید صاحب پھر یوں فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
    اندراسٹینڈنگ کہ عمل میں آدمی نامعلوم پے قانع ہوجاتا ہے یعنی اس بیان کے اندر موجود یا اس سے ایکسپریس ہونے والی نامعلومیت پر انڈر اسٹینڈنگ والا شعورقانع ہوجاتا ہے جبکہ جو صوفی شعور ہے یعنی پریزنس آف میننگ والا شعور وہ نامعلوم پر قانع نہیں ہوتا ۔(جبتک کہ وہ نامعلوم کی کفیت مجہولہ کو اپنے شعور میں ہیئت وجود و ظہور کے اعتبار سے منزل شہود پر ملاحظہ نہ کرلے ۔ آبی ٹوکول ) ۔مطلب یہ لوگ یعنی صوفیاء غیب کو ان پرنسپل ملحوظ اور محفوظ رکھتے ہوئے اس کے غیاب میں بھی ایک قسم کی پریزنس پیدا کرلیتے ہیں ۔اور اسے صوفیاء کی اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں ۔اعتبار جو صوفیاء کی اصطلاح ہے اس کا ایک بہت بنیادی مطلب غیب میں پریزنس پیدا کرلینا ہے ۔۔۔۔۔
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

    Comment


    • #17
      Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

      اقتباس از : شرح بال جبریل: ایک سلسۂ گفتگو
      شرح و بیان: احمد جاوید
      تدوین: محمد سہیل عمر
      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

      Comment


      • #18
        Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

        مجدد صاحب کے مکتوب ربانی مجھے بھی پڑھنے کا شرف حاصل ہوا اس کی تینوں
        جلیدں دفتر اول یا دارلمرفت دفتر دوئم یا نور الخلائق اور دفتر سوم بہ معرفت الحاقائق زیر مطالعہ رہی ہیں



        مجدد صاحب تک نہیں بلکہ تصوف اور خرد دشمنی لازم و ملزوم ہیں
        صوفیہ ہمیشہ سے جستجوئے حقیقت یا اعلم الیقین کے لیے عقل و خرد کے بجائے
        کشف و شہود سے رجوع لانے پہ اسرار کرتے ائے ہیں
        اور اس مضر رساں غلط فہمی کا باعث بنے رہے ہیں کہ کشف کو عقلی دلائل پہ
        فوقیت ھاصل ہے

        چنانچہ شیخ اکبر ابن عربی نے وحدت الوجود کا نظریہ اپنے ذاتی کشف
        و حال کی بنا پہ مرتب کیا تھا شیخ کی طرح دوسرے وجودی صوقفیا مولانا روم
        عطار ابن الفارض وغیرہ وارادات و مکاشفات کے باعث وحدت وجود پہ
        اعتقاد رکھتے تھے لیکن دوسری طرف مجدد سر ہندی صاحب
        جو وحدت شہود کے شارع ہیں انہیں اپنے ذاتی کشف سے یہ علم حاصل ہوا
        کہ وحدت الوجود باطل اور ہمہ اوسر سچا نظریہ ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے
        کہ شاہ ولی اللہ دہلوی اس بات کے مدعی ہیں کہ ان کا وجدان
        وحدت شہود اور وحدت الوجود دونوں کی تصدیق کرتا ہے اس سے ثابت ہوا
        کہ کشف وغیر سے ھاصل ہونے والا علم متضاد و متناقص بھہ ہو سکتا ہے
        نیز کشف علم کا مصدر و ماخز نہیں ہوسکتا کیونکہ
        وہ اپنی کیفیات کی تعریف نہیں کر سکتا، اپنی کیفیات کے اظہار وبیان سے
        عاجز ہے اور عقل کی مدد اور عقلی دلائل کے بغیر اپنی کیفیات میں صھیح و غلط کی تمیز
        نہیں کر سکتا




        :rose
        :(

        Comment


        • #19
          Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

          اسلام علیکم ڈاکٹر صاحب !
          اگر آپ بنظر غائر مجدد صاحب کہ اقتباس پر غور فرمائیں تو آپ پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ مجدد صاحب علیہ رحمہ نے کہیں بھی عقل اور عقلی علوم کا انکار نہیں کیا بلکہ اگر آپ مجدد صاحب کی تمام تصانیف پر غور فرمائیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے انھوں تصوف کہ فلسفیانہ پہلوؤں کو بھی شرع یعنی عقلی و نقلی علوم کہ ماتحت رکھنے کی بار بار تاکید کی ہے .جیسا کہ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ طریقت عین شریعت اور شریعت عین طریقت ہے ۔بال برابر بھی ان میں فرق نہیں ،فرق صرف اجمال و تفصیل اور کشف و استدلال کاہے شریعت کا جومخالف ہے وہ باطل و مردود ہے ۔۔۔۔۔
          اوپر جو اقتباس شئر کیا گیا اس میں حقیقت فقط اتنی ہے کہ سائل نے علم الیقین کی حقیقت کی بابت صوفیاء اور غیر صوفیاء کہ طریق استدلال میں اختلاف کی وجوہ کا تحقق جاننا چاہا ہے . کیونکہ سائل کو اس میں تردد ہے کہ جب دونوں کا علم الیقین اثر سے مؤثر بالذات پر استدلال کے معاملے میں یکساں اصول رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ صوفیاء اور غیر صوفیاء دونوں کہ استدلال میں واسطہ واحد ہونے کہ باوجود ایک کہ علم کو کشف و شہود والا جبکہ دوسرے کو فکر و نظر کے تنگی والا کہا جاتا ہے?????

          ۔لہذا اسی سوال کہ جواب میں حضرت مجدد صاحب نے کشفی علوم کی اثر سے موثر بالذات تک رسائی کی حقیقت کو کشفی و شہودی قرار دیا ہے جو کہ اثر سے موثر بالذات تک انتقال حقیقت کو بالصورہ متضمن ہے جبکہ علوم شریعہ عقلیہ و نقلیہ میں یہی حقیقت بجائے کشفی کہ محض نظری یا استدلالی ہوتی ہے جو کہ اثر سے مؤثر بالذات تک رسائی کی حقیقت کو متضمن بالصورہ نہیں ہوتی اور یہی وہ باریک و لطیف نکتہ ہے کہ جسے مجدد صاحب نے بطور فرق بیان کیا ہے
          ۔
          جہاں تک بات ہے کشف و شہود کی حقیقت کی تو خود حضرت مجدد ایک عرصہ تک وحدت الوجود کہ نظریہ پر قائم رہنے کہ بعد جب اس سے دستبردار ہوئے تو اس کا محرک اپنے ذاتی کشف و الہام کو بتلایا ساتھ یہ واضح کرتے ہوئے کہ صاحب الہام کا کشف و الہام فقط اسی پر حجت ہے نہ کہ کوئی دوسرا اسکا مکلف یہی وجہ ہے وہ نظریہ وحدۃ الوجود والوں کہ کشف کو خطائے کشفی قرار دیتے ہیں بالکل علوم شریعہ والوں کی خطائے اجتھادی کی طرح ۔۔۔اور حقیقت یہ ہے کہ کشف بااعتبار حقیقت اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے ایک تاثری اور دوسرا تخیلی۔
          کشف ، " حقیقت تاثری " کی اعتبار سے ایک باطنی امر ہے یعنی فقط صاحب کشف کی ذات تک محدود ہے اوراسی کی زندگی کا جزو اور اس کی ملکیت ہے اور اسکے غیر کی دسترس سے بالاتر ہے۔ لیکن دوسری طرف یہی کشف " تخیلاتی اعتبار " سے ایک قابل تعبیر حقیقت ہے کہ جسکی ماہیت و حقیقت میں اختلاف پر بحرحال بات ہوسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔ والسلام
          Last edited by aabi2cool; 19 June 2012, 22:57.
          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

          Comment


          • #20
            Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

            واعلیکم اسلام عابد صاحب


            بہت شکریہ اس تفصیلی جواب کا ممنون ہوں کہ اپ نے اپنے قیمتی وقت سے کچھ
            وقت ہمیں عنائت کیا اپ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے


            ۔۔۔۔پس پہلی جماعت کا یقین کشف و شہود میں داخل ہوتا ہے اور دوسری جماعت کا یقین استدلال کی تنگی سے باہر نہیں آتا


            عقلی استدلال کو فکر و نظر کی تنگی کہنے سے مراد کہ وہ علقی دلائل کو
            رد تو نہیں کرتے لیکن طرفہ طور پہ وجدان کو عقل پہ فوقیت دیتے ہیں
            یونان قدیم کے عارفی اسکندریہ کے نو اشرافی ہندوستان کے ویدانتی
            اور عراق و یران کے صوفیہ سب اہل بات پہ متفق ہیں کہ
            عقل وخرد ناقص ہے ظاہر کی انکھ بند کرنے سےباطن کی انکھ روشن
            ہوتی ہے عقل مادی عالم میں اسیر ہو کر رہ جاتی ہے


            جناب مجدد صاحب علوم عقلی کے بارے میں جو رائے رکھتے یقینا اپ
            کی نظر میں وہ مکتوب ہونگے جو دفتر اول میں شامل ہیں
            وہ علوم عقلیہ کو مسلمانوں کے حق میں زہر قاتل سمجھتے تھے
            فلاسفہ کے بارے میں فرماتے ہیں

            یہ لوگ بہت ہی بے خرد اور بے وقوف ہیں اور ان سے زیادہ
            کمینہ اور بے وقوف و احمق شخص وہ ہے جو ان کو دانا اور عقلمند جانتا ہے


            اور علم ہندسہ یعنی ریاضی کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے

            ان کے منظم اور مرتبہ علوم میں ایک علم ہندسہ بھی ہے
            جو محض لا یعنی اور بیہودہ اور لاطائل ہے بھلا مثلث کے تینوں
            زاویہ کے ساتھ برابر ہونا کس کام ائے گا


            اس طرح کے بے شمار مثالیں ہیں جن سے ثابت ہوتا کہ وہ عقل کو
            ناقص اور تنگی سے تعبیر کرتے ائے ہیں ۔

            اس ٹاپک کو لیکر میں جناب مجدد سرہندی صاحب کا قیومیت کا نظریہ
            معراج روحانی مکتوب یاز درہم کی مخالفت
            اور مکتوب کی اس عبارت کی توضیح چاہوں گا کہ جس سے یہ مفہوم ہوتا ہے
            کہ رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم اپنی وفات سے ایک ہزار
            سال بعد ایک فرد امت ( حضرت مجدد) کی وجہ سے مقام خلیلی
            سے مستجاب ہوئے



            اس پر کافی اعتراضات بھی ہوئے تھے جن کی تفصیل رود کوثر
            از شیخ محمد اکرام میں تفصیل سے درج ہے لیکن چونکہ اپ کا مطالعہ وسیع ہے
            اس وجہ سے میں یہاں گوش گزار دیا ہے



            یاد رہے کہ میرا مقصد کسی کی دل آزاری یا مذہبی عقائد پہ بات کرنا ہرگز نہیں ہے
            نا میں بحث برائے بحث کا قائل ہوں نا ان باتوں سے اپ کے علم کا امتحان
            مقصود ہوتا ہے بلکہ صرف اپنی تشفی اور حصول علم کے لیے جس کا مجھے
            بے حد شوق ہے کو لیکر میں یہ اتا۔۔


            خوش رہیں


            ڈاکٹر فاسٹس

            Last edited by Dr Fausts; 21 June 2012, 09:22.
            :(

            Comment


            • #21
              Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

              اسلام علیکم ڈاکٹر صاحب ! اینڈ بہت شکریہ میری معروضات پر سر دھننے کا ۔۔۔
              جہاں تک ہے میرے مطالعہ کی تو یقینا مجھے مطالعہ کی لت تو بہت پرانی ہے مگر اس پر دعوٰی وسعت نہیں ہے باقی جن نکات کی طرف آپ نے نشاندہی فرمائی یقینا ان میں سے بعض میری دسترس مطالعہ میں تھے لیکن یہ جو سلسلہ میں نے شروع کیا ہے یہ بحث و مباحثہ کے لیے نہیں کیا فقط اچھی چیزوں کی شئرنگ کے لیے ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ سلسلہ بھی بحث و مباحثہ ہی کی طرف بڑھ رہا ہے جو کہ میں نے چاہتا سو اسی سلسلہ میں عرض ہے کہ یہاں پر شئر کیئے گئے کسی بھی اقتباس پر آپکو وضاحت مطلوب ہو یا آپکی نظر میں اسکی توجیہ یا تاویل کچھ اور ہو تو آپ بڑے شوق سے ایک الگ تھریڈ کی صورت میں اس اقتباس کو کوٹ کرکے دعوت مباحثہ دے سکتے ہیں یا پھر اپنی ہی معلومات شئر کرسکتے ہیں اس طرح سے یقینا ہمارا یہ سلسلہ بھی متاثر نہ ہوگا اور کسی تاریخی اور ادبی اقتباس پر اگر کسی کو کوئی علمی دقیقہ پیش ہوتو وہ اپنی وضاحت بھی کھل کرایک نئے تھریڈ کی صورت میں کرسکتا ہے میری طرف سے آپکو عام اجازت ہے کہ آپ اس موضوع اور تہذیب والے موضوع دونوں کو بلا شبہ الگ تھریڈ کی صورت میں لگائیں مجھے جیسے ہی بحث کی فرصت میسر آئی تو ضرور اپنا نقطہ نظر بھی پیش کروں گا امید ہے آپ میرا نقطہ پاگئے ہونگے والسلام
              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

              Comment


              • #22
                Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                aap asaan urdu mein nahi likhsaktay? yeh urdu barri mushkil hai mujh se nahi parhi jaa rahi hai....
                sigpic

                Comment


                • #23
                  Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                  ایران قدیم کے تمدن نے مشرق وسطی کے ممالک پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں
                  یہودیوں نے خدا اور شیطان کے الہیاتی دوئی بابل کی اسیری کے دوران میں مجوسیوں سے
                  ہی لیے تھے اس سے پہلے وہ شیطان کے تصور سے ناواقف تھے

                  یہودیت کے واسطے سے جنت دوزخ پل صراط برذخ عذاب ثواب، مسیحا
                  حوروں اور فرشتوں کے تصورات عیسائیت اور اسلام میں نفوذ کر گئے
                  ۔زمان کی مستقیم حرکت کا نظریہ بھی تعلیمات زردشت سے یادگار ہے
                  مجوسی زمان کی گردش دولابی کے منکر تھے اور زمان کو حقیقی مانتے تھے
                  یعنی کئائنات کا اغاز بھی ہے اور انجام بھی ہو گا۔اسی تصور سے معاد اور
                  ھشر نشر کے مذہبی عقائد وابستہ ہیں مشہور انگریز مورخ ٹوئن بی نے اس
                  نظریے کو زردشت کا ایک بہت بڑا فکری اجتہاد قرار دیا ہے۔۔ایرانی تمدن نے مسلمانوں
                  کو خاص طور سے متاثر کیا ہے بنو عباس کے عہد کے تمدن کو عربی
                  تمدن کا دور زریں سمجھا جاتا ہے لیکن اس تمدن کی تعمیر
                  و تشکیل میں عربوں کا ھصہ برائے نام ہے اور یہ ایرانی تمدن ہی کی این فرع ہے
                  بنو عباس نے انتظام مملکت مالگزاری کے طریقے ڈاک کی ترسیل وغیرہ ساسانیہوں
                  سے ہی اخز کئے تھے۔ان کے عیہد کے اکثر علما فقہا
                  فلاسفہ سائنس دان اور ادبا عجمی نژازد تھے
                  اببن المقفع مترجم کلیہ دمنہ، عربی عروض کو موجد خلیل بن احمد
                  سباویہ نحوی، ابن اسحاق، سیرت نگار نعمان بن ثابت فقیہ، حماد بن سابور
                  جامع معلقات، الکسائی نحوی فلاسفہ بو علی سینا البیرونی، اخوان الٍصفا
                  محقق طوسی متکلمین رازی غذالی، صوفیہ شیخ عطار
                  سنائی رومی جامی حلاج، شہاب الدین سہروردی، مورٰخین
                  طبری فینوری، محدثین امام بخاری
                  امام مسلم مسویقار ابراہم موصلی اسحاق موصلی وغیرہ اکثر
                  بیشتر ایرانی ہی ہیں

                  عباسیوں کے زوال اور ہبوط بغداد کے بعد یہی تمدن مغلوں اور ترکوں کے واسطے
                  مصر ترکی عراق شام خراسان افغانستان اور ہندوستان
                  میں پھیل گیا۔۔محمود غزنوی وار ظیر الدین بابر اسے ہندوستان لائے
                  پاکستان ہندوستان ترکیہ، عراق اور افغانستعان کی موسیقی
                  شاعری فن تعمیر فلسفے تصوف رسوم معاشرہ اآداب محفل لباس کی وضع قطع
                  اور چمن بندی پر ایرانی تمدن کے گہرے اثرات اج بھی باقی و برقرار ہیں



                  روایات تمدن قدیم ڈاکٹر فاسٹس
                  :(

                  Comment


                  • #24
                    Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                    مذاہب عالم کا مطالعہ اور تقابلی مذاہب چونکہ میرا پسندیدہ
                    سبجیکٹ ہے اس لیے اس اس پہ گاہے گاہے کچھ شئیر کرتا رہوں گا




                    ایران کے مدعی نبوت مرزا علی محمد باب نے مجوسیت مانونیت اور فلسفہ
                    نوفلاطوینیت پر باطنیت کا پیوند لگا کر ایک نیا مذہب ایجاد کیا،ان کا تفسیر
                    آیات کا تمثیلی انداز باطنیہ قدیم ہی سے ماخوذ ہے اپنی کتاب ’’ بیان ‘‘ میں فرماتے ہیں


                    ’’ جناب محمد کے مخاطب وحشی اور بدوی لوگ تھے اس لحاظ سے کہ وہ
                    بعث معاد جنت نار وغیرہ کا مفہوم ٹھیک طرح سے سمجھنے سے قاصر تھے
                    آپ صلی علیہ واسلم ان کے مفہوم مادی صورتوں میں ان کے سامنے پیش کرتے تھے
                    تاجہ وہ اسانی سے سمجھ سکیں لیکن دورہ بیان میں مخاطب دانا اور متمدن لوگ یعنی
                    ایرانی ہیں اس لیے الفاظ اور اصطلاحات مذکورہ کو دوسری طرز میں بیان
                    کیا گیا ہے اور ن الفاظ کے ایسے معنی مراد لیے گئے ہیں
                    جو عقل و فہم سے زیادہ قریب ہوں مثلا قیامیت سے مراد
                    ہر زمانے میں شجر حقیقت کا ظہور ہے۔۔قیامت کے لیے کوئی مردہ قبروں سے
                    نہیں اٹھے گا بلکہ بعثت یہی ہے کہ اس زمانے کے پیدا ہونے والے لوگ
                    زندہ ہو جاتے ہیں۔۔قیامت کا دن بھی دوسرے دنوں کی مانند ہے
                    افتاب حسب معمول طلوع و غروب ہوتا ہے۔ جس سر زمین پہ قیامت برپا ہوتی ہے
                    بسا اوقات وہاں کے باشندے اس سے مطلع نہیں ہوتے
                    اسی طرح نقظہ ظہور کی تصدیق اور اس پر ایمان لانے کو جنت کہتے ہیں
                    لیکن جنت بعد از موت کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں
                    دوزخ سے مراد نقطہ ظہور پر ایمان نہ لانا اور اس سے انکار کرنا ہے
                    برزخ وہ موت ہے جو دو ظہوروں کے درمیان حد فاصل ہے


                    ۔۔۔



                    :(

                    Comment


                    • #25
                      Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                      جذبہ نام ہے انسان کے اندر ودیعت کردہ ایسی قوت کا جو انسان کے اندر ایسی ترغیب پیدا کرتی ہے کہ جس کے نتیجے میں انسان کسی بھی شئے کی طرف فطری طور پر کھنچا چلا جاتا ہے، یہ کھچاؤ یا کشش انسان کے فطری و طبعی میلانات کا ہی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اور جہاں تک تعلق ہے جذبات کی محسوسات کا ، تو انسان اپنے اردگرد کے ماحول سے محض اپنے اعصاب کی فطری اثر پذیری کے تحت، تمام قسم کے جذبات کو فکری سطح پر لائے بغیر بھی محض شعوری اعتبار سے جان سکتا ہے۔ چناچہ اس کے لیے کسی خاص تجربے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔
                      جہاں تک تعلق ہے محبت کا تو ہماری آجکل کی نوجوان نسل کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہ جذبہ محبت کو فقط جنس(اصناف) کے تناظر میں دیکھنے کی عادی ہوگئی ہے لہذا محبت کے فقط اسی اعتبار سے اسکی شناسائی باقی رہ گئی ہے جبکہ محبت کے کئی اعتبارات ہیں اور ہر اعتبار اپنے اندر جدا جدا تقاضے بھی رکھتا ہے اس لیے ہمارے نزدیک محبت کو محض جنسی (اصنافی) تناظر میں نہیں تولا جاسکتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نہ ہی جذبہ محبت کو محض اسی اعتبار کہ حوالہ سے محصور کیا جاسکتا ہے ۔
                      مسئلہ یہ ہے کہ ہم انسانوں کے لیے محبت کا سب سے بڑا قرینہ ہی مجاز بن کر رہ گیا ہے۔ مجاز جو کہ اپنے اعتبار کی حیثیت سے یا پھر عناصر میں اپنی ترکیب کہ اعتبار سے فقط آثار پر انحصار کرتا ہے، سو یہی وجہ ہے کہ آجکل کے دور میں محبت محض آثاری ہوکر رہ گئی ہے لہذا آج کے دور میں محبت کا سفر فقط انہی آثار تک محدود ہوکر رہ گیا ہے جو کہ قرینہ مجاز میں بطور عناصر ترکیبی کہ شامل ہیں ۔
                      اقتباس : اقتباس : از افادات حضرت آبی ٹوکول مدظلہ :garmi:

                      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                      Comment


                      • #26
                        Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                        دنیا کا کوئی بھی فلسفہ یا نظریہ ہو عوام الناس میں بعض ایسے طبقات ضرور ہوتے ہیں کہ جن میں وہ فلسفہ یا نظریہ بطور ایک عامیانہ ورژن کے رائج ہوتا ہے لیکن علمی میدان میں جب ان نظریات پر بات کی جاتی ہے تو اہل علم کا شیوہ یہ ہے کہ وہ ان نظریات کہ رد و اثبات پر انکے حقیقی (ایکچؤل) ماخذات کی روشنی میں گفتگو کے عادی ہوتے ہیں نہ کے عامیانہ ورژن سے نیز انہی ماخذات کی روشنی میں اہل علم اُس نظریہ کی شرعی حیثیت کا تعین بھی کیا کرتے ہیں لیکن اس کہ برعکس جیسا کہ عوام الناس میں کسی بھی نظریہ کے عامیانہ ورژنز کو اپنانے والے مل جاتے ہیں بالکل اسی طرح نام نہاد پڑھے لکھے طبقہ میں بھی ایسے افراد کی کثرت ہے جو کہ انتہائی سطحیت کا مظاہر کرتے ہوئے عوام الناس میں رائج ان فسلفوں کو انکے اصل ماخذ کی بجائے عوام کے عامیانہ ورژن کے حساب سے ڈسکس کرنے کے عادی ہوتے ہیں کیونکہ انکو اچھی طرح سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم نے یہ حربہ استعمال نہ کیا تو حقیقی ماخذات جو کہ صریحا ہمارے خلاف ہیں انکا دفاع قریبا ناممکن ہوجائے گا۔
                        لہذا وہ عوام کے تمام تر طبقات میں ظاہر پرستی کے مظاہر کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں " کیونکہ انسان پر ظاہریت اور مادیت کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے لہذا یہ عناصر انسان پر فی الفور اثر انداز ہوتے ہیں "ظاہریت کے حسن کی ایک ادنٰی اور سطحی سی جھلک انسان کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرلیتی ہے ، ایسے میں وہ کسی بھی تعمق کی وادی میں قدم رکھنے کی بجائے " سحرزدہ " ہوکر ظاہریت اور مادیت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے اور پھر اسے جتنے مرضی عقلی اور نقلی دلائل پیش کرو اسکے پاس اپنے فہم کے "سحرزدہ " ہونے کی وجہ سے سوائے فریق مخالف کی دلیل کو " منطق و فلسفہ یا تاویل " کہہ کر رد کرنے کہ دوسرا کوئی چارہ کار نہیں بچتا سو ایسے میں وہ بیچارہ معذور کہلائے گا

                        اقتباس : اقتباس : از افادات حضرت آبی ٹوکول مدظلہ
                        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                        Comment


                        • #27
                          Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                          حالات و واقعات کی جزئیات کو قرائن شواہد کی کڑیوں کے ساتھ اک خاص حسن ترتیب سے ملاتے ہوئے نتائج اخذ کرنے کا نام تجزیہ نگاری ہے ۔ مقالات آبی

                          دلیل اوردلیلیت :
                          کسی نامعلوم کو معلوم کرنے کا راستہ دلیل کہلاتا ہے یعنی دلیل ایسا معلوم ہے جو کہ نامعلوم کو معلوم کرنے کہ لیے مواد استدلال مہیا کرتا ہے یہ ایک ایسا طریقہ کار ہے کہ جس میں انسانی عقل تشکیک سے تحقیق تک کا سفر طے کرتی ہے یا آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جس شئے سے کسی دعوٰی کی صحت کو جانچا جائے وہ دلیل کہلاتی ہے۔ قیاس بھی دلیل کی ایک شکل ہے لیکن کسی قیاس کے محکم دلیل بننے کے لیے اجزائے قیاس کا مسلمات میں سے ہونا ضروری ہے تب کہیں جاکر وہ دلیل کی دلیلیت بن پاتا ہے ۔
                          مقالات آبی ٹوکول
                          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                          Comment


                          • #28
                            Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                            طویل فراغت کے ساتھ پڑھنے والا تھریڈ


                            آپ دونوں حضرات کا علمی تحریریں فراہم کرنے کا شکریہ۔
                            :star1:

                            Comment


                            • #29
                              Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                              سید جعفر شاہ پھلواری لکھتے ہیں:۔

                              جناب فاضل بریلوی علوم اسلامیہ تفسیر حدیث و فقہ پر عبور رکھتے تھے منطق فلسفے اور ریاضی میں بھی کمال حاصل تھا۔

                              عشق رسول کے ساتھ ادب رسول میں اتنے سرشار تھے کہ ذرا بھی بے ادبی برداشت نہ تھی، کسی بے ادبی کی معقول توجیہہ اور تاویل نہ ملتی، تو کسی اور رعایت کا خیال کئے بغیر اور کسی بڑی سے بڑی شخصیت کی پرواہ کئے بغیر دھڑلے سے فتوٰی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہیں حُب رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) میں اتنی زیادہ فسطائیت حاصل تھی کہ غلو کا پیدا ہو جانا بعید نہ تھا۔ تقاضائے ادب نے انہیں بڑا احساس بنا دیا تھا اور اس احساس میں جب خاصی نزاکت پیدا ہو جائے تو مزاج میں سخت گیری کا پہلو بھی نمایاں ہو جانا کوئی تعجب کی بات نہیں، اگر بعض بے ادبانہ کلمات کو جوش توحید پر محمول کیا جا سکتا ہے تو تکفیر کو بھی محبت و ادب کا تقاضا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لئے فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو میں اس معاملے میں معذور سمجھتا ہوں لیکن یہ حق صرف اس کے لئے مخصوص جانتا ہوں جو فاضل موصوف (محدث بریلوی) کی طرح فنافی الحب والا ادب ہو۔

                              (بحوالہ سفید و سیاہ صفحہ 116۔)
                              ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                              Comment


                              • #30
                                Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے





                                ترس کھا ایسی ملت پر

                                ترس کھا ایسی ملت پر جو توہمات سے پر اور عقیدے سے خالی ہو

                                ترس کھا ایسی ملت پر جو وہ زیبِ تن کرتی ہو جو اس نے نہیں بنا، وہ کھاتی ہو جو اس نے نہیں بویا، وہ شراب پیتی ہو جو کسی اور نے کشید کی

                                ترس کھا ایسی ملت پر جو غنڈے کو ہیرو سمجھےاور فاتح کو بھر بھر جھولی درازی عمر کی دعا دے

                                ترس کھا ایسی ملت پر جو نیند میں بہادر اور جاگتے میں بزدل ہو

                                ترس کھا ایسی ملت پر جس کی صدا سوائے جلوسِ جنازہ کبھی بلند نہ ہو، سوائے زیرِ شمشیر کبھی گردن نہ اٹھے

                                ترس کھا ایسی ملت ہر جس کا مدبر لومڑ اور فلسفی مداری ہو اور ہنر ان کا صرف لیپا پوتی اور نقالی ہو

                                ترس کھا ایسی ملت پر جو نقارہ بجا کر نئے حاکم کا استقبال کرے اور آوازے کس کے رخصت کرے اور پھر نقارہ بجائے اگلے حاکم کے لیے

                                ترس کھا ایسی ملت پر جس کے دانشمند گزرتے وقت کے ساتھ بہرے ہوتے چلے جائیں، جس کے قوی اب تک گہوارے میں ہوں

                                ترس کھا ایسی ملت پر جو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہر ٹکڑا خود کو ملت جانے

                                ( گلشنِ پیمبر۔ خلیل جبران۔)

                                اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
                                اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

                                Comment

                                Working...
                                X