Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے
السوال : صوٍفیاء کے نزدیک علم الیقین اس یقین سے عبارت ہے جو کہ اثر سے مؤثر پر استدلال سے حاصل ہو اور چونکہ یہ معنی اہل نظر اور اہل استدلال کو بھی میسر ہے تو صوفیاء کے علم الیقین میں کیا فرق ہوتا ہے اور صوفیاء کا علم الیقین کشف و شہود میں کیوں داخل ہوتا ہے اور علماء کا علم الیقین کس وجہ سے فکر و نظر کی تنگی سے باہر نہیں آتا ؟؟؟؟
الجواب :جاننا چاہیے کہ دونوں جماعتوں کے علم الیقین میں اثر کا شہود لازم ہے تاکہ اس جگہ سے مؤثر کا سراغ لگایا جاسکے جو کہ غیر مشھود ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ وہ تعلق جو کہ اثر اور مؤثر کہ درمیان حاصل ہے اور اثر کہ وجود سے مؤثر کہ وجود تک پہنچنے کا سبب ہے ۔ صوفیا کہ علم الیقین میں وہ تعلق بھی مشھود و مکشوف ہے ۔اور اہل استدلال کہ علم الیقین میں وہ واسطہ نظری ہے جو کہ فکر و دلیل کا محتاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔پس پہلی جماعت کا یقین کشف و شہود میں داخل ہوتا ہے اور دوسری جماعت کا یقین استدلال کی تنگی سے باہر نہیں آتا ۔اور صوفیاء کے علم الیقین میں استدلال کا اطلاق ظاہراور صورت پر مبنی ہے جو کہ اثر سے مؤثر تک انتقال کو متضمن ہے اور حقیقت میں کشف و شہود ہے۔
برخلاف علماء کے علم الیقین کے کہ وہ حقیقتا استدلالی ہے ۔اور چونکہ یہ باریک فرق اکثر لوگوں پر پوشیدہ رہا، تو ناچار وہ مرتبہ حیرت میں پڑے ہوئے ہیں ۔اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نارسائی کیو جہ سے بعض بزرگوں پر اعتراض کی زبان دراز کرلی ہے ۔جنہوں نے صوفیاء کے علم الیقین میں اثر سے موثر پر استدلال سے تفسیر کی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ان کو حقیقت الامر کی اطلاع نہیں ہے ۔ اور اللہ حق کو حق کرتا ہے اور وہی رستے کی راہنمائی کرتا ہے ۔
مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ حصہ ہشتم دفتر سوم
نوٹ : اسی بات کو مشھور دانشور و فلسفی احمد جاویدصاحب نے اپنے انداز میں کچھ اس طرح سے بیان فرمایا کہ ۔۔۔۔۔
پہلے اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ صوفی ایپسٹیم یعنی صوفیاء کا نظام العلم دین سے دین کی ترجمانی کرنے والے دیگر اسالیب علم سے مختلف ہے۔
ان دونوں اسالیب میں بنیادی بنائے اختلاف یہ ہے کہ صوفیا ء کے نزدیک معنی حضور کا نام ہے۔ یعنی کسی بیان کا معنی حضور پیدا کرے گا شعور میں،اور جو دوسرا اپیسٹیم ہے یعنی نان صوفی وہ انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرے گا ۔یعنی ایک بیان ایک شعور میں انڈراسٹینڈنگ پیدا کررہا ہے جبکہ وہی بیان ایک دوسرے شعور میں جو کہ صوفی ہے اس میں پریزنس پیدا کررہا ہے ۔
اسکی مزید تشریح جاوید صاحب پھر یوں فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اندراسٹینڈنگ کہ عمل میں آدمی نامعلوم پے قانع ہوجاتا ہے یعنی اس بیان کے اندر موجود یا اس سے ایکسپریس ہونے والی نامعلومیت پر انڈر اسٹینڈنگ والا شعورقانع ہوجاتا ہے جبکہ جو صوفی شعور ہے یعنی پریزنس آف میننگ والا شعور وہ نامعلوم پر قانع نہیں ہوتا ۔(جبتک کہ وہ نامعلوم کی کفیت مجہولہ کو اپنے شعور میں ہیئت وجود و ظہور کے اعتبار سے منزل شہود پر ملاحظہ نہ کرلے ۔ آبی ٹوکول ) ۔مطلب یہ لوگ یعنی صوفیاء غیب کو ان پرنسپل ملحوظ اور محفوظ رکھتے ہوئے اس کے غیاب میں بھی ایک قسم کی پریزنس پیدا کرلیتے ہیں ۔اور اسے صوفیاء کی اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں ۔اعتبار جو صوفیاء کی اصطلاح ہے اس کا ایک بہت بنیادی مطلب غیب میں پریزنس پیدا کرلینا ہے ۔۔۔۔۔
الجواب :جاننا چاہیے کہ دونوں جماعتوں کے علم الیقین میں اثر کا شہود لازم ہے تاکہ اس جگہ سے مؤثر کا سراغ لگایا جاسکے جو کہ غیر مشھود ہے ۔
خلاصہ کلام یہ کہ وہ تعلق جو کہ اثر اور مؤثر کہ درمیان حاصل ہے اور اثر کہ وجود سے مؤثر کہ وجود تک پہنچنے کا سبب ہے ۔ صوفیا کہ علم الیقین میں وہ تعلق بھی مشھود و مکشوف ہے ۔اور اہل استدلال کہ علم الیقین میں وہ واسطہ نظری ہے جو کہ فکر و دلیل کا محتاج ہے ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔پس پہلی جماعت کا یقین کشف و شہود میں داخل ہوتا ہے اور دوسری جماعت کا یقین استدلال کی تنگی سے باہر نہیں آتا ۔اور صوفیاء کے علم الیقین میں استدلال کا اطلاق ظاہراور صورت پر مبنی ہے جو کہ اثر سے مؤثر تک انتقال کو متضمن ہے اور حقیقت میں کشف و شہود ہے۔
برخلاف علماء کے علم الیقین کے کہ وہ حقیقتا استدلالی ہے ۔اور چونکہ یہ باریک فرق اکثر لوگوں پر پوشیدہ رہا، تو ناچار وہ مرتبہ حیرت میں پڑے ہوئے ہیں ۔اور ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنی نارسائی کیو جہ سے بعض بزرگوں پر اعتراض کی زبان دراز کرلی ہے ۔جنہوں نے صوفیاء کے علم الیقین میں اثر سے موثر پر استدلال سے تفسیر کی ہے یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ان کو حقیقت الامر کی اطلاع نہیں ہے ۔ اور اللہ حق کو حق کرتا ہے اور وہی رستے کی راہنمائی کرتا ہے ۔
مکتوبات امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی علیہ رحمہ حصہ ہشتم دفتر سوم
نوٹ : اسی بات کو مشھور دانشور و فلسفی احمد جاویدصاحب نے اپنے انداز میں کچھ اس طرح سے بیان فرمایا کہ ۔۔۔۔۔
پہلے اس میں یہ دیکھنا چاہیے کہ صوفی ایپسٹیم یعنی صوفیاء کا نظام العلم دین سے دین کی ترجمانی کرنے والے دیگر اسالیب علم سے مختلف ہے۔
ان دونوں اسالیب میں بنیادی بنائے اختلاف یہ ہے کہ صوفیا ء کے نزدیک معنی حضور کا نام ہے۔ یعنی کسی بیان کا معنی حضور پیدا کرے گا شعور میں،اور جو دوسرا اپیسٹیم ہے یعنی نان صوفی وہ انڈر اسٹینڈنگ پیدا کرے گا ۔یعنی ایک بیان ایک شعور میں انڈراسٹینڈنگ پیدا کررہا ہے جبکہ وہی بیان ایک دوسرے شعور میں جو کہ صوفی ہے اس میں پریزنس پیدا کررہا ہے ۔
اسکی مزید تشریح جاوید صاحب پھر یوں فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اندراسٹینڈنگ کہ عمل میں آدمی نامعلوم پے قانع ہوجاتا ہے یعنی اس بیان کے اندر موجود یا اس سے ایکسپریس ہونے والی نامعلومیت پر انڈر اسٹینڈنگ والا شعورقانع ہوجاتا ہے جبکہ جو صوفی شعور ہے یعنی پریزنس آف میننگ والا شعور وہ نامعلوم پر قانع نہیں ہوتا ۔(جبتک کہ وہ نامعلوم کی کفیت مجہولہ کو اپنے شعور میں ہیئت وجود و ظہور کے اعتبار سے منزل شہود پر ملاحظہ نہ کرلے ۔ آبی ٹوکول ) ۔مطلب یہ لوگ یعنی صوفیاء غیب کو ان پرنسپل ملحوظ اور محفوظ رکھتے ہوئے اس کے غیاب میں بھی ایک قسم کی پریزنس پیدا کرلیتے ہیں ۔اور اسے صوفیاء کی اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں ۔اعتبار جو صوفیاء کی اصطلاح ہے اس کا ایک بہت بنیادی مطلب غیب میں پریزنس پیدا کرلینا ہے ۔۔۔۔۔
Comment