Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    اسلام علیکم معزز قائین !

    آپ سب کی خدمت میں ایک نئے سلسلہ کہ آغاز کہ ساتھ حاضر ہوں کرنا یہ ہے کہ یہاں اس گوشہ میں تاریخ اور ادب کی روایت کو پروان چڑھانے کے لیے مسلم امہ سے لیکر تاریخ اقوام عالم اور عالمی ادب سے لیکر اسلامی علوم و فنون کہ مختلف زوایہ ہائے فکر کو بصورت اقتباسات کہ نقل کرنا ہے ۔

    والسلام سو پہلا اقتباس درج ذیل میں ہماری طرف سے حاضر ہے ۔۔


    جو لوگ اسلام کے حقیقی تصور تاریخ کی تفہیم سے قاصر تھے ۔ وہ اس مجوزہ تجربہ گاہ (پاکستان) کی تشکیل کے راستے میں حائل ہورہے تھے ۔ جن لوگوں نے تصور تاریخ کی حقیقی قدروں کو،فکری اور تہذیبی بنیادوں کو پوری کلیت کے ساتھ سمجھ لیا ،ان کے لیے پاکستان کہ قیام کی تحریک کو تسلیم کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا کار ثواب تھا ۔ یہ بات اپنی جگہ بڑی معنی خیز ہے پورے ہندوستان میں موجود اور مروج چاروں سلاسل تصوف (نقشبندیہ، سہروردیہ ، قادریہ اور چشتیہ ) کی کوئی ایک خانقاہ بھی ایسی نہ تھی کہ جس کہ موجود سجادہ نشین نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی ہو۔اصل حقیقت یہ ہے کہ جہاں تاریخ کہ مکمل وجدان کی کارفرمائی موجود ہے اور وجدان ،تہذیبی معنویت کو جنم دے رہا ہے تو ایسی فکری اور بالخصوص متصوفانہ تحریک کو روکنا مشکل ہی نہیں ، نامکمن تھا۔ پھرجس تحریک کہ پیچھے علامہ اقبال جیسے نابغے کا فکر کام کررہا ہو ، وہ تحریک کسی کہ روکنے سے کب رکنے والی تھی۔۔۔۔


    ۔۔۔۔۔ تحریک پاکستان کی تفہیم کہ پس منظر میں کتاب " اقبال کا تصور تاریخ " سے اقتباس از آبی ٹوکول
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2
    Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

    aap nay acha silsila shuru kiya hai aur muje bhi islami tareekh aur indo pak history se khaasi dilchispi rahi hai.... thanks for sharing...
    sigpic

    Comment


    • #3
      Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

      بہت خوب آبی بھائی -لطف آئے گا *پڑھ کرکس کس نے اسلام اور پاکستان کو لہو پلایا
      Last edited by Jamil Akhter; 29 May 2012, 18:01.
      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #4
        Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

        Originally posted by Sub-Zero View Post
        بہت خوب آبی بھائی -لطف آئے گا *پڑھ کرکس کس نے اسلام اور پاکستان کو لہو پلایا
        اسلام علیکم بھائیوفقط سراہو مت، آپ بھی کچھ شئر کریں چاہے وہ علوم کی صورت میں انٹلیکچؤلیٹی کو اپیل کرئے یا پھر فنون یعنی آرٹ کی صورت میںانسانی محسوسات کو اپیل کرتا ہو علم وفن کسی بھی شاخ سے کچھ بھی ہوجائے ۔۔۔۔ والسلام
        ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

        Comment


        • #5
          Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

          فرمان اقبال علیہ رحمہ ۔۔ یوسف سلیم چشتی کی یاداشتوں سے اقتباس
          ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

          Comment


          • #6
            Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

            آبی بھائی بہت نفیس اقتباس شئیر کیا اسی طرح چھوٹے چھوٹے کالم شئیر کرنے سے ایک تو بندہ توجہ سے پڑھتا ہے دوسری دلچسپی لیتا ہے آج کے تیز ترین دور میں طویل تحریریں کوئی کوئی کمپیوٹر پر پڑھتا ہے ورنہ کتابوں میں امید ہے آپ میری بات کو جدید دور کے تقاضوں کے حساب سے دیکھیں گئے
            جلد میں کچھ اچھا سا شئیر کروں گا
            Last edited by Jamil Akhter; 29 May 2012, 21:39.
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے


              بہت خوب اچھا ٹاپک ہے میں سب سے پہلے شاعری پہ بات کروں گا
              باقی موضوعات پہ بھی انشا اللہ بات ہوگی



              انسان اخر کیا بلا ہے کہ ہزاروں برس کی تہذیبی جہدوجہد کے باوجود
              وہ اپنے اپ کو دریافت نہیں کر پایا۔۔بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وقت
              گزرنے کے ساتھ ساتھ شناخت کا سمئلہ الجھتا ہی چلا گیا۔۔بہت سے مذاہب اور علوم نے باطن
              شناسی کے کئی طریقے ڈھونڈ نکالے ہیں۔مگر ہر بار راستے میں ایسا بند دروزہ یا دیواراجاتی
              ہے جو کسی بھی طرح راہ دینے کو تیار نہیں ہوتی۔

              روز اغاز سے اب تک انسان دستکیں دیتا چلا ایا ہے کبھی یہاں کبھی
              وہاں مگر شہر انا میں داخل ہونے کا کوئی مستقل راستہ نظر ہی نہیں اتا
              اگر کبھی کوئی دروزہ کھلتا بھی ہے کوئی دیوار ہٹتی بھی ہے تو چند لمحوں
              کے بعد انسان اپنے اپ کو فصیل سے باہر ہی پاتا ہے اور دستک دینے کا یہعمل
              دوبارہ شروع ہوجاتا ہے


              شاعری شاید وہ واحد ہستی ہے جو جب چاہے اس شہر ممنوعہ میں
              داخل ہو سکتی ہے اور کسی نہ کسی حد تک وہاں کا احوال بھی بیان کر سکتی ہے
              لیکن صوفی اس نگر کا باقاعدہ باسی ہونے کے باوجود گونگا ہے
              خدا نے اسے آنکھیں دے دی ہیں زبان عطا نہیں کی یا شاید اس لیے
              بھی کہ اس کی زبان کو ہم سمجھ نہیں پاتے کہ وہ بے حد
              تہہ در ہونے کے ساتھ ساتھ اجنبی بھی ہے اور بشریت سے
              اس کا رشتہ بھی مضبوط نہیں۔

              مگر شاعری کو کسی بھی سطع پر نامانوس نہیں قرار دیا جاکستا اس کی زبان
              عام طور پر ہماری روزمرہ کی زبان سے بہت قریب ہوتی ہے اور اسے
              ہم بہت حد تک سمجھ بھی سکتے ہیں۔شاید علم کی ابتدا شاعری سے ہوئی تھی اور
              حکمت کی انتہا اج بھی شاعری ہے۔مگر شاعر ہمیشہ اس شہر انا
              کے اندر زندگی نہیں گزارتا اسے بھی ہما،ری اپ کی طرح دستک دینی
              پڑتی ہے مگر اس کی دستک پر بند دروزہ ہی نہیں کھلتا کئی بار دیوار بھی
              ٹوٹ جاتی ہے





              :(

              Comment


              • #8
                Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                اسلام کے روحانی پہلو کا نام تصوف ہے، خواہ اسے احسان کا نام دیا جائے یا تزکیہ کا، خواہ اسے ذہد کہا جائے یا تصوف یا ان کے علاوہ کسی اور نام سے
                یاد کیا جائے سب کا نتیجہ اور حاصل ایک ہی ہے اور سب کا مقصود یہ ہے کہ رب تعالٰی کے ساتھ بندے کا تعلق ،بہتر سے بہترین ہوجائے۔ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عہد میں ایمانیات ،فقہیات ،حدیثیات ،تفسریات اور تصوفات کے نام سے کوئی بھی فن مدون ہوا تھا اور نہ اس وقت اسکی ضرورت تھی ۔ بعد میں ضرورتوں کہ لحاظ سے مذہب اسلام کہ یہ مختلف پہلو فنون کی شکل میں مدون ہوگئے ،ابتدا میں یہ سارے ہی فنون بالکل سادہ اور تفصیلات والجھاو سے خالی تھے لیکن بعد کہ عہد میں ان سارے فنون میں تفصیلات آتی گئیں اور اسکی وجہ سے الجھاؤ بھی پیدا ہوتا گیا ۔ یہی معاملہ تصوف کہ ساتھ بھی رہا ،تصوف میں اسلام کے روحانی پہلو پر توجہ مرکوز کی گئی تھی ،اس کے بھی عہد آغاز میں سادگی تھی اور تفصیلات کا الجھاؤ نہ تھا لیکن، جیسے جیسے فن ترقی کرتا گیا اس کے مختلف ابواب پر گفتگو بڑھتی گئی ، جزئیات پر کلام کا سلسلہ زلف جاناں کی طرح دراز تر ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ اس میں بھی تعقید و الجھاؤ پیدا ہوگیا اور پھر چند ایسے مسائل سامنے آگئے جن پر خالص فلسفیانہ انداز میں بعض محققین صوفیا نے کلام کیا ، اسکا نتیجہ ایک طرف یہ نکلا کہ ان مسائل کی آڑ میں بعض ملحدین نے ان کا غلط مفھوم نکال کر اسلامی تصوف میں نقب زنی کی کوشش کی ، تو دوسری طرف مخالفین تصوف کو تنقید کا موقع ہاتھ آگیا ۔

                بشکریہ مجلہ احسا ن الہ آباد انڈیا شمارہ نمبر دو مارچ دوہزار گیارہ
                ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                Comment


                • #9
                  Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                  یہاں شاندار اور دل میں اتر جانے والی تحریریں دیکھنے کو مل رہی ہیں ان سے بیک وقت دو فائدے مل رہے ہیں ایک تو تاریخ کو سمجھنے کا موقع مل رہا دوسرا پیغام کے شاندار ہیروں کے ذوق انتحاب کو پرکھنے کا موقع
                  :rose
                  Last edited by Jamil Akhter; 30 May 2012, 01:29.
                  ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                  سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                  Comment


                  • #10
                    Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                    بہت خوب گڈ گوئنگ عابد صاحب
                    thmbup:
                    :(

                    Comment


                    • #11
                      Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                      اسلام کسی مخصوص خطہ ارضی کے لیے نہیں آیا یہ ٹھیک ہے کہ اسلام کا آغاز شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں بلاشبہ عرب سے ہوا مگر اسلام اپنے اندر آفاقیت کہ ساتھ ایسی جامعیت رکھتا ہے جو کہ ساری کائنات کو محیط ہے اسی لیے یہ دین عالمگیریت کی علامت ہے لہذا یہی وجہ ہے کہ اسلام کی اپنی ایک تہذیب ہے کہ جس میں عالمگیریت کا مذاق پایا جاتا ہے ۔
                      میرے نزدیک تہذیب کا تعلق مادیت سے نہیں بلکہ اخلاق و اطوار سے ہے اسی لیے تہذیب تمدن پر بیس نہیں کرتی بلکہ روحانی اور اخلاقی قدروں کی بلند آہنگی اسکا مرکز و محورہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں تمدن کا شاخسانہ مختلف جغرافیائی تقسیمات و رسومات و رواجات ہیں اسی لیے تمدن انواع و اقسام کی ثقافتوں کواپنے دامن میں لیے ہوئے ہے ۔ لہذا نتیجہ یہ نکلاکہ دین اسلام تہذیب کہ حوالہ سے تو قطعی نصوص رکھتا ہے کہ اسکی اپنی ایک مخصوص تہذیب ہے مگر مخصوص علاقائی ثقافتوں پر اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوتا جبتک وہ دین کی کسی نص کی قاطع نہ ہو ۔۔۔والسلام
                      ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                      Comment


                      • #12
                        Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                        . مسجد ِاقصیٰ پریہودیوں کے حق تولیت و تصرف کی وکالت کرتے ہوئے فاضل مضمون نگار لکھتے ہیں:''فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں نے اس نہایت مقدس اور فضیلت والی عبادت گاہ کو جو صدیوں سے ویران پڑی تھی، آباد اور تعمیر کیا۔ قرآن و سنت کی اُصولی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے اس اقدام کی نوعیت خالصتاً احترام و تقدیس اور تکریم و تعظیم کی تھی، نہ کہ استحقاق اور استیثار کی۔ اس کی تولیت کی ذمہ داری انہوں نے یہود کو اس سے بے دخل کرکے اس پر اپنا حق جتانے کے تصور کے تحت نہیں، بلکہ ان کی غیر موجودگی میںمحض امانتا ًاُٹھائی تھی۔ لیکن چونکہ اس سارے عرصہ میں یہود کے نزدیک نہ مذہبی لحاظ سے ہیکل کی تعمیر کی شرائط پوری ہوتی تھیں اور وہ نہ سیاسی لحاظ سے اس پوزیشن میں تھے کہ اس کا مطالبہ یا کوشش کریں، اس لئے کم و بیش تیرہ صدیوں تک جاری رہنے والے اس تسلسل نے غیر محسوس طریقے سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ مسلمانوں کی وابستگی اور اس پر استحقاق کا ایک ایسا تصور پیدا کردیا جس کے نتیجے میں معاملہ کااصل پس منظر اور اس کی صحیح نوعیت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔''
                        (اشراق: اگست ٢٠٠٣، صفحہ ٤٨)
                        بیت المقدس کی تولیت کی ذمہ داری اور امانت کا مندرجہ بالا تصور مصنف کے مخصوص فکری رجحانات کانتیجہ ہے، ورنہ تاریخی طور پر اس کاکوئی وجود نہیں ہے۔ حضرت عمر کے زمانے میں جب مسلمانوں نے یروشلم فتح کیا تھا، تو ان کے اور عیسائیوں کے درمیان جو مفصل معاہدہ تحریر میں لایاگیا تھا، اس میں اس طرح کی کسی مزعومہ امانت کا ذکر تک نہیں ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ یہودیوں کی غیر موجودگی میں مسلمانوں کو اس بارِ امانت کے اُٹھانے کی ضرورت کیا تھی۔ بالخصوص حضرت عمر جیسے خلیفہ عادل کی موجودگی میں، جسے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ مسلمان بیت المقدس کے اس حصہ میں نماز ادا کریں جو عیسائیوں نے اپنی عبادت کے لئے منتخب کررکھا تھا۔ اگر اسے بعد میں یہودیوں کی تولیت میں دینے کا مسئلہ ہوتا، تومسلمان مذکورہ معاہدہ میں اس کا اِندراج ضرور کراتے، اتنی بڑی بات کو نظر انداز کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ حضرت عمرفاروق نے یروشلم پہنچنے کے بعد اہل بیت المقدس کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا، اس کے یہ الفاظ ہمارے خصوصی تجزیہ کے متقاضی ہیں :
                        ''یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر نے اہل ایلیا کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لئے ہے۔ نہ ان کے گرجاؤں میںسکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو یا ان کے احاطے کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیا کے باسیوں میں سے جو یہ چاہیں کہ اپنی جان و مال لے کر رومیوں کے ساتھ چلے جائیں اور اپنے گرجا اور صلیبیں چھوڑ جائیں تو ان کی جانوں، گرجوں اور صلیبوں کو امان حاصل ہے یہاں تک کہ وہ کسی پرامن جگہ پر پہنچ جائیں۔''


                        محمد عطاء اللہ صدیقی
                        بشکریہ: ماہنامہ محدث لاہور، نومبر 2003، جلد35، عدد 11
                        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                        Comment


                        • #13
                          Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                          @


                          شکریہ عابد صاحب اپ نے اپنی قیمتی رائے کا اظہار کیا۔ مجھے سچ میں
                          یہ اچھا لگ رہا کہ کسی بات پہ ٹو دی پوئینٹ بات ہو اور
                          ایک مثبت بحث یقینا نہ صرف میرے اپ کے بالکہ باقی ممبر کے
                          علم میں اضافے کا باعث بنے گی

                          اب تہذیب کے ھوالے سے میں اپ کی بات کا جواب دیتا ہوں براہ مہربانی
                          اس پہ روشنی دالیے گا اگر اپ کی بات مان لی جائے تو ان اشکال
                          کو کسیے رفع کیا جاسکتا ہے






                          کسی بھی معاشرے کی بامقصد تخیلیقات اور سماجی اقدار کے نطام کو تہذیب کہتے ہیں
                          تہذیب معاشرے کی طرز زندگی اور طرز فکر و احساس کا جوہر ہے چنانچہ زبان آلات
                          او اوزار پیدا کرنے کے طریقے اور سماجی رشتے رہن سہن فنون لطیفہ علم و ادب فلسفہ و حکمت عقائد و
                          افسوں، اخلاق و عادات رسم و روایات، عشق و محبت کے سلوک اور خاندانی تعلقات تہیذیب کے مظاہر ہیں


                          اب اگر عابد صاحب اپ اسلامی تہذیب سے مراد اسلامی عقائد اور رسوم لے رہے
                          تو پھر میں اپ کی بات سے متفق ہوں کہ پاکستان کیا پوری دنیا کے اکثر ممالک
                          میں اسلامی تہذیب موجود ہے اس میں پاکستان کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ
                          ہر ملک کا مسلمان ایک خدا کو مانتا ہے رسول صلعم کا اخری بنی
                          گردانتا قران کو کلام الہی تسلیم کرتا ہے احادیث نبوی صلعم کو بطور سند پیش کرتا ہے
                          نماز حج زکوۃ روزہ کو مذہبی فریضہ سمجھتا ہے عید ، بقر عید کے
                          تیوہار مناتا ہے اور ختنہ، بسمہ اللہ اور نکاح کی رسمیں ادا کرتا ہے
                          تما دنیا بالخصوص مغربی اشیا کے مسلمانوں کے روایتی طرز فکر
                          و احساس پر بھی اسلام کی چھاپ بہت گہری ہے اور ان کی تہذیبی قدروں تلمیحوں
                          استعاوروں اور علامتوں میں بھی بہت سی باتیں مشترک ہیں

                          مگر


                          اس اشتراک کے باوجود کوئی صھیح الدماغ شخص عربوں کی تہذیب اور
                          انڈونیشین تہذیب کو ایک نہیں کہے گا حالانکہ دونوں مسلمان تہذیبیں ہیں
                          اس طرح ایران اور مراکش یا فغانستعان اور سوڈان کی تہذیبیں یکساں نہیں

                          مذہب تہذیب کا جز تو ضرور ہے لیکن نہ تو تہذیب کی بنیاد مذہب پر قائم ہے
                          اور نہ مذہب کے ھوالے سے اس کو پہچانا جاسکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا
                          تو مراکش سے ملایا تک مسلمانوں کی تہذیبیوں میں کوئی فرق نہ ہوتا





                          خوش رہیں



                          داکٹر فاسٹس
                          :(

                          Comment


                          • #14
                            Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                            dOCTOR SAB IS PER SUNDAY WALY DIN KO BAAT HOGI AAJAKAL BOHTA BUZY HON TIME NAHEEN HI INSHALLAH SUNDAY KO DEKHEEN GAAAAY WASLAAAAAM
                            ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

                            Comment


                            • #15
                              Re: تاریخی دریچوں اور ادبی جھروکوں سے

                              khobsurat topic

                              Comment

                              Working...
                              X