اہلِ ظاہر کو ان سوالات کے جوابات سوچنے پڑھتے ہیں۔ الِ باطن پر جواب پہلے آشکار ہوتا ہے، سوال بعد میں* بنتا ہے۔
اگر جواب معلوم نہ ہو تو سوال گستاخی ہے اور اگر جواب معلوم ہو تو سوال بے باکی ہے۔ بے باکی میں تعلق قائم رہتا ہے اور گستاخی میں* تعلق ختم ہو جاتا ہے۔
اگر ہم ذہن سے سوچیں تو سوال ہی سوال ہیں اور اگر دل سے محسوس کریں تو جواب ہی جواب۔
اگر ہم اس کے ہیں تو وہ ہمارا ہے۔ جواب ہی جواب۔ اگر ہم صرف اپنے لئے ہیں، تو ہم پر عزاب ہے۔ علم کا عزاب، ذہن کا عزاب، سوال ہی سوال۔
سوال دراصل ذہن کا نام ہے اور جواب دل کا نام۔ ماننے والا جاننے کے لئے بے تاب نہیں* ہوتا اور جاننے کا متمنی ماننے سے گریز کرتا ہے۔
شک سوال پیدا کرتا ہے اور یقین جواب مہیا کرتا ہے۔ شک یقین کی کمی کا نام ہے اور یقین شک کی نفی کا نام۔ یقین، ایمان ہی کا درجہ ہے۔
آسمانوں ااور زمین کے تمام سفر سوالات کے سفر ہیں لیکن دل کا سفر جواب کا سفر ہے۔ ان سوالات کے جوابات دانس وروں سے نہ پوچھیں، اپنے دل سے پوچھیں۔ اس دل سے جو گداز ہونے کا دعویٰ بھی رکھتا ہے!!"
-----------------------------------------------------------------
thanks to FT
:rose
اگر جواب معلوم نہ ہو تو سوال گستاخی ہے اور اگر جواب معلوم ہو تو سوال بے باکی ہے۔ بے باکی میں تعلق قائم رہتا ہے اور گستاخی میں* تعلق ختم ہو جاتا ہے۔
اگر ہم ذہن سے سوچیں تو سوال ہی سوال ہیں اور اگر دل سے محسوس کریں تو جواب ہی جواب۔
اگر ہم اس کے ہیں تو وہ ہمارا ہے۔ جواب ہی جواب۔ اگر ہم صرف اپنے لئے ہیں، تو ہم پر عزاب ہے۔ علم کا عزاب، ذہن کا عزاب، سوال ہی سوال۔
سوال دراصل ذہن کا نام ہے اور جواب دل کا نام۔ ماننے والا جاننے کے لئے بے تاب نہیں* ہوتا اور جاننے کا متمنی ماننے سے گریز کرتا ہے۔
شک سوال پیدا کرتا ہے اور یقین جواب مہیا کرتا ہے۔ شک یقین کی کمی کا نام ہے اور یقین شک کی نفی کا نام۔ یقین، ایمان ہی کا درجہ ہے۔
آسمانوں ااور زمین کے تمام سفر سوالات کے سفر ہیں لیکن دل کا سفر جواب کا سفر ہے۔ ان سوالات کے جوابات دانس وروں سے نہ پوچھیں، اپنے دل سے پوچھیں۔ اس دل سے جو گداز ہونے کا دعویٰ بھی رکھتا ہے!!"
-----------------------------------------------------------------
thanks to FT
:rose
Comment