احسان علي
کيسي رنگيلي طبعيت تھي احسان علي کي، محلے ميں کون تھا جو ان کي باتوں سے محفوظ نہ ہوتا تھا، اگر وہ محلے کي ڈيورہي ميں جاپہنچے، جہاں بوڑھوں کي محفل لگي ہوتي تو کھانسي کے بجائے قہقہے گونجنے لگتے، چوگان ميں بيٹھي عورتوں کے پاس سے گزرے تو دبي دبي کھي کھي کا شور بلند ہوتا محلے کے کنويں کے پاس جا کر کھڑے ہوتے تو لڑکوں کے کھيل ميں نئي روح دور جاتي۔
جوان لڑکياں انہيں ديکھ کر گھونگھٹ تلے آنکھوں ہي آنکھوں ميں مسکراتيں، اور پھر ايک طرف سے نکل جانے کي کوشش کرتيں، مٹيار عورتيں ديکھ پاتيں تو ان کے گالوں ميں گھڑے پڑجاتے خواہ مخواہ جي چاہتا کہ کوئي بات کريں، بوڑھي عورتین قہقہ مار کر ہنس پڑتيں مثلا اس روز احسان علي کو چوگان ميں کھڑا ديکھ کر ايک بولي، يہاں کھڑے ہو کر کسے تاڑ رہے ہو، احسان علي، يہ سامنے عورتوں کا جو جھرمٹ لگا ہے، نہ جانے کس محلے سے آئي ہيں، دوسري نے دور کھڑي عورتوں کي طرف اشارہ کيا، اے ہے اب تو اپنے حيمد کيلئے ديکھا کرو، بھابي کہنے لگي، اللہ رکھے جوان ہوگيا، اور تو کيا اپنے لئے ديکھ رہا ہوں، بھابھي احسان علي مسکرايا، اس بات پر ايک معني خيز طنزيہ قہقہ بلند ہوا، احسان علي ہنس کر بولا دنيا کسي صورت ميں راضي نہيں ہوتي ہے چاچي اپنے لئے ديکھو تو لوگ گھورتے ہيں، کسي کيلئے ديکھو تو طعنہ ديتے ہيں مذاق اڑاتے ہيں، جواب دينے ميں احسان علي کو کمال حاصل تھا، ايسا جواب ديتے کہ سن کر مزہ آجاتا، شادان نے يہ سن کر چاچي کو اشارہ کيا اور مصنوعي سنجيدگي سے کہنے لگي، چاہے اس عمر ميں اوروں کيلئے ديکھنا ہي رہ جاتا ہے، احسان علي نے آہ بھري بولے کاش تم ہي سمجھتيں شاداں، اتني عمر ہوچکي ہے چچا پر تمہيں سمجھ نہ آئي، شاداں مسکرائي ابھي ديکھنے کي حوس نہيں مٹي۔
اچھا شاداں ايمان سے کہنا سنجيدگي سے بولے کبھي تمہیں ميلي آنکھ سے ديکھا ہے؟
بائيں چچا شاداں ہونٹ پر انگلي رکھ کر بيٹھ گئي، ميں تو تمہاري بيٹي کي طرح ہوں، يہ بھي ٹھيک ہے وہ ہنسے جب جواني ڈھل گئي تو چچا جي سلام کہتي ہوں، ليکن جب جوان تھي توبہ جي پاس نہ بھٹکتي تھي کبھي کيوں بھابھي جھوٹ کہتا ہوں ميں؟ اس بات پر سب ہنس پڑے اور احسان علي وہاں سے سرک گئے، ان کے جانے کے بعد بھابھي نے کہا، تو بہ بہن شاداں نے مسکراتے ہوئے کہا ابکون سا حاجي بن گيا ہے، اب بھي تو عورت کو ديکھ کر منہ سے رال ٹپکٹتي ہے، ليکن شادان بھابھي نے کہا شاباش ہے اس کو کبھي محلے کي لڑکي کو ميلي آنکھ سے نہيں ديکھا، يہ تو ميں مانتي ہوں شاداں نے ان جانے ميں آہ بھري، يہ صفت بھي کسي کسي ميں ہوتي ہے، چاچي نے کہا، جب محلے واليوں کي يہ بات احسان علي نے پہلي بار سن پائي بولے اتنا بھروسہ بھي نہ کرو مجھ پر۔
کيوں چاچي نےہنس کر کہا، يہ کيا جھوٹ ہے تمہاري يہ صفت واقعي خوب ہے تو منہ پر کہوں گي، احسان علي، لو چاچي يہ صفت نہ ہوتي ان ميں تو ہمارے محلے ميں رہنا مشکل ہو جاتا ہے، شاداں بولي۔
جواں مٹياريں تو اب بھي پلا بجا کر نکلنے کي کوشش کرتيں، جب احسان علي جوان تھے، ان دونوں تو کسي عورت کا ان کے قريب سے گذرجانا بے حد مشکل تھا، خواہ مخواہ دل دکھ دکھ کرنے لگتا، ماتھے پر پسينہ آجاتا، دونوں ہاتھوں سے سينہ تھام ليتي، ہائے ميں مرگئي، يہ تو اپنا احسان علي ہے، ان دنوں بوڑھي عورتيں مخدوش نگاہوں سے گھورتي تھيں، محلے کے مرد تو اب ابھي انہيں ديکھ کر تيوري چڑھاليتے البتہ جب وہ کوئي دلچپ بات کرتے تو وہ ہنسنے لگتے، اور يوں ہمکال ہوتے ہيسے اپني فراحدلي کيوجہ سے ان کے گزشتہ گناہ معاف کردئيے ہوں، ليکن احسان علي کي غير حاضري ميں وہ اکثر کہا کرتے، بوڑھا ہوگيا ہے ، ليکن ابھي ہدايت نہيں ہدايت تو اللہ مياں کي طرف سے ہوتي ہے، جنہيں نہ ہو انہيں کبھي نہيں ہوتي، حرامکاري کي لت کبھي جاتي ہے بابا جي ہاں بھئ يہ تو سچ ہے، ديکھ لو اتني عمر ہوچکي ہے، باتوں ميں کوئي فرق نہيں آيا، وہي چھيرڑ کافي لا ہولا ولا قوتھ، بات بھي سچي تھي اگر چہ احسان علي پچاس سے زيادہ ہوچکے تھے، ليکن وہي منڈي داڑھي متبسم آنکھيں اور چھيڑنے والي باتيں، ان کي روح ويسے ہي جوان تھي بچوں کو گلي ڈنڈا کھيلتے ہوئے ديکھتے تو وہيں کھرے ہو کر واہ واہ کرنےلگتے کھلاڑي کو داد دينے لگتے يا امپائر بن کر کھڑے ہو جاتے، کڑکے انہيں کھيل ميں حصہ لينے پر مجبور کرتے، تالياں بجاتے شور مچاتے چچا جي ہمارے آڑي بنيں گے، نہيں ہمارے ايک ہنگامہ بپا ہوجاتا تھا، کھڑکيوں سے محلے والياں جھانکيں لگتين، لو ديکھ لو احسان علي گلي ڈنڈا کھيل رہے ہيں، چق کي اوت ميں سے آواز آتي ہے، بھائي جي کيا پھر سے جوان ہونے کا ارادہ ہے؟ سبز جنگلے سے شاداں سر نکالتي، ابھي تو اللہ رکھے پہلي جواني ختم نہيں ہوئي، شاہ نشين سے چاچي بولتي، توبہ شاداں تو بھي کس رخ سے چين لينے نہيں ديتي، شکر کر احسان کا دھيان کھيلوں سے ہٹا ہے، گلي ڈنڈا کھيلنے ميں کيا عيب ہے، مسجد سے آتا جاتا کوئي محلے دار نہيں ديکھ کر ہنستا، کب تک اس لڑکيوں کے کھيل ميں لگے رہے گے اب خدا کو بھي ياد کرو، احسان علي ہنس کر گنگناتے، وقت پيري گرگ ظالن ميشور پرہيزگار، دوسرا آکر کہتا ہے، دنياواري غلاظت سے اکتائے نہيں ابھي؟صوم صلوتھ کي پاکيزگي کو کيا جانو، احسان کہتے، بابا جي غلاظت کا احساس ہوتو پاکيزگي کي آرزو پيدا ہوتي ہے، تم ميں احساس نہيں کيا، بابا جي پوچھتے ہيں اور وہ جواب ديتے ہيں، احساس تو ہے پر غلاظت بھي ہو، اس بات پر کوئي لاحول پڑھ ديتا اور وہ ہنستے، لو بھائي جي ابن تو شيطان بھي آگيا اور وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
احسان علي کے آنے سے پہلے محلہ کيسا ويران دکھائي ديتا تھا، اگرچہ موسم سرما ميں دوپہر کے قريب محلے والياں چوگان ميں اکھٹي ہوکر ازار بند بناتي تھي، دوپہر کے قريب جب چوگان ميں دھوپ آتي تو چوکياں بجھ جاتيں مٹي کي ہنڈياں رکھ دي جاتين، جن تيلوں کے مٹھے بھرے ہوتے، بارہ بجے کھانے پينے سے فارغ ہو کر عورتيں وہاں جمع ہوجاتيں، ايک بجے تک اچھا خاصا ميلا لگ جاتا، عجيب آوازيں پيدا کرتے تتلياں ٹکراتيں ازار بند بنتے ہوئے کسي کي بات چھڑ جاتي گلے ہوتے شکايتيں ہوتيں، ايک دم دوسرے پر آواز کسے جاتے مگر قہقہت کي آواز نہ ہوتي، ادھر ڈيوڑھي ميں مسئلے مسائل بات گرم رہتي، شريعت کے احکام بار بار دہرائے جاتے، حديثوں کے حوالے دئيے جاتے، اوليا کرام کي حکايات سنائي جاتيں ہنگامہ تو مگر اس ميں مزاج کي شيرني نام کونہ ہوتي، عورتوں کے مسلسل جھگڑوں اور مردوں کي خشک بخشوں کي وجہ سے وہ مسلسل شور محلہ اور بھي ويران کرديتا، پھر احسان علي پينش لے کے محلے ميں آبے ان کے آنے کے بعد محلے کا رنگ بدل گيا، جب عورتيں ايک دوسرے کے گلے شکوے کرنے ميں مصروف ہوتيں تو احشسان علي نکل آتے اور آتے ہي ايس بات کرتے کہ سبھي ہنس پٹرتيں، اور محفل کا رنگ ہي بدل جاتا طعنے اور تمسخر کي جگہ ہنسي مذاق شروع ہوجاتے، آپس ميں جھگٹرتي عورتين ملکر احشان علي کے خلاف محاذ قايم کرليتيں اور محلے کے چوگان ميں قہقہے گونجتے لگتے محلے کے بزرگ خشک مسائل چھوڑ کر احسان علي کے چٹکلے سننے لگتے، بات بات پر لاحولا پڑھنے والے بڈھے لاحول پڑھنا بھول جاتے ليکن پھر بھي عادت سے مجبور ہر کر کوئي نہ کوئي لاحول پڑھ ديتا اس پر احسان علي کھلکھلکلا کر ہنس پٹرتے، بھائي جان کيا آپ کو بات بات پر لاحول پڑھنے کي ضرورت پٹرتي ہے ہم تو يہ جانتے ہيں کہ شيطان کا خطرہ لاحق نہ ہو لاحوال کا سہار لينے کي ضرورت نہيں پٹرتي، احسان علي کو لاحول سے چڑ تھي، ہاں تو واقعي احسان علي کے آنے پر محلے ميں ايک نئي روح دوڑ گئي تھي۔
پھر ايک روز ايک انوکھا واقعہ ہوا، چوگان ميں عورتيں حسب معمول جمع تھيں، نئي روشني کے نوجوانوں کي بات چل رہي تھي شاداں نےدور سے احسان علي کو آتے ديکھ ليا، چاچي کو اشارہ کر کے باآواز بولي چچي خدا جھوٹ نہ بلائے آج کل تو چھوٹے چھوٹے لڑکے بھي چچا احسان علي بنے ہوئے ہيں راہ چلتي لڑکي کو تاڑتے ہيں، ہائے ہائے چاچي نے شاداں کا اشارہ سمجھنے بغير کہا تم تو خواہ مخواہ اس بے چارے، شاداں نے پھر سے اشارہ دہرايا، جسے ديکھ کر چچي کا غصہ مسکراہٹ ميں بدل گيا، آج کل کے مردوں کي کيا پوچھتي ہو چچي، شاداں نے پھر سے بات شروع کي بال کچھڑي ہوجاتے ہيں، پر عورتوں کو تاڑنے کي لت نہيں جاتي، ہاں شاداں چچي نے منہ بنا کر کہا، زمانہ ہي ايسا آيا ہے، اس کےبعد مجمے پر
کيسي رنگيلي طبعيت تھي احسان علي کي، محلے ميں کون تھا جو ان کي باتوں سے محفوظ نہ ہوتا تھا، اگر وہ محلے کي ڈيورہي ميں جاپہنچے، جہاں بوڑھوں کي محفل لگي ہوتي تو کھانسي کے بجائے قہقہے گونجنے لگتے، چوگان ميں بيٹھي عورتوں کے پاس سے گزرے تو دبي دبي کھي کھي کا شور بلند ہوتا محلے کے کنويں کے پاس جا کر کھڑے ہوتے تو لڑکوں کے کھيل ميں نئي روح دور جاتي۔
جوان لڑکياں انہيں ديکھ کر گھونگھٹ تلے آنکھوں ہي آنکھوں ميں مسکراتيں، اور پھر ايک طرف سے نکل جانے کي کوشش کرتيں، مٹيار عورتيں ديکھ پاتيں تو ان کے گالوں ميں گھڑے پڑجاتے خواہ مخواہ جي چاہتا کہ کوئي بات کريں، بوڑھي عورتین قہقہ مار کر ہنس پڑتيں مثلا اس روز احسان علي کو چوگان ميں کھڑا ديکھ کر ايک بولي، يہاں کھڑے ہو کر کسے تاڑ رہے ہو، احسان علي، يہ سامنے عورتوں کا جو جھرمٹ لگا ہے، نہ جانے کس محلے سے آئي ہيں، دوسري نے دور کھڑي عورتوں کي طرف اشارہ کيا، اے ہے اب تو اپنے حيمد کيلئے ديکھا کرو، بھابي کہنے لگي، اللہ رکھے جوان ہوگيا، اور تو کيا اپنے لئے ديکھ رہا ہوں، بھابھي احسان علي مسکرايا، اس بات پر ايک معني خيز طنزيہ قہقہ بلند ہوا، احسان علي ہنس کر بولا دنيا کسي صورت ميں راضي نہيں ہوتي ہے چاچي اپنے لئے ديکھو تو لوگ گھورتے ہيں، کسي کيلئے ديکھو تو طعنہ ديتے ہيں مذاق اڑاتے ہيں، جواب دينے ميں احسان علي کو کمال حاصل تھا، ايسا جواب ديتے کہ سن کر مزہ آجاتا، شادان نے يہ سن کر چاچي کو اشارہ کيا اور مصنوعي سنجيدگي سے کہنے لگي، چاہے اس عمر ميں اوروں کيلئے ديکھنا ہي رہ جاتا ہے، احسان علي نے آہ بھري بولے کاش تم ہي سمجھتيں شاداں، اتني عمر ہوچکي ہے چچا پر تمہيں سمجھ نہ آئي، شاداں مسکرائي ابھي ديکھنے کي حوس نہيں مٹي۔
اچھا شاداں ايمان سے کہنا سنجيدگي سے بولے کبھي تمہیں ميلي آنکھ سے ديکھا ہے؟
بائيں چچا شاداں ہونٹ پر انگلي رکھ کر بيٹھ گئي، ميں تو تمہاري بيٹي کي طرح ہوں، يہ بھي ٹھيک ہے وہ ہنسے جب جواني ڈھل گئي تو چچا جي سلام کہتي ہوں، ليکن جب جوان تھي توبہ جي پاس نہ بھٹکتي تھي کبھي کيوں بھابھي جھوٹ کہتا ہوں ميں؟ اس بات پر سب ہنس پڑے اور احسان علي وہاں سے سرک گئے، ان کے جانے کے بعد بھابھي نے کہا، تو بہ بہن شاداں نے مسکراتے ہوئے کہا ابکون سا حاجي بن گيا ہے، اب بھي تو عورت کو ديکھ کر منہ سے رال ٹپکٹتي ہے، ليکن شادان بھابھي نے کہا شاباش ہے اس کو کبھي محلے کي لڑکي کو ميلي آنکھ سے نہيں ديکھا، يہ تو ميں مانتي ہوں شاداں نے ان جانے ميں آہ بھري، يہ صفت بھي کسي کسي ميں ہوتي ہے، چاچي نے کہا، جب محلے واليوں کي يہ بات احسان علي نے پہلي بار سن پائي بولے اتنا بھروسہ بھي نہ کرو مجھ پر۔
کيوں چاچي نےہنس کر کہا، يہ کيا جھوٹ ہے تمہاري يہ صفت واقعي خوب ہے تو منہ پر کہوں گي، احسان علي، لو چاچي يہ صفت نہ ہوتي ان ميں تو ہمارے محلے ميں رہنا مشکل ہو جاتا ہے، شاداں بولي۔
جواں مٹياريں تو اب بھي پلا بجا کر نکلنے کي کوشش کرتيں، جب احسان علي جوان تھے، ان دونوں تو کسي عورت کا ان کے قريب سے گذرجانا بے حد مشکل تھا، خواہ مخواہ دل دکھ دکھ کرنے لگتا، ماتھے پر پسينہ آجاتا، دونوں ہاتھوں سے سينہ تھام ليتي، ہائے ميں مرگئي، يہ تو اپنا احسان علي ہے، ان دنوں بوڑھي عورتيں مخدوش نگاہوں سے گھورتي تھيں، محلے کے مرد تو اب ابھي انہيں ديکھ کر تيوري چڑھاليتے البتہ جب وہ کوئي دلچپ بات کرتے تو وہ ہنسنے لگتے، اور يوں ہمکال ہوتے ہيسے اپني فراحدلي کيوجہ سے ان کے گزشتہ گناہ معاف کردئيے ہوں، ليکن احسان علي کي غير حاضري ميں وہ اکثر کہا کرتے، بوڑھا ہوگيا ہے ، ليکن ابھي ہدايت نہيں ہدايت تو اللہ مياں کي طرف سے ہوتي ہے، جنہيں نہ ہو انہيں کبھي نہيں ہوتي، حرامکاري کي لت کبھي جاتي ہے بابا جي ہاں بھئ يہ تو سچ ہے، ديکھ لو اتني عمر ہوچکي ہے، باتوں ميں کوئي فرق نہيں آيا، وہي چھيرڑ کافي لا ہولا ولا قوتھ، بات بھي سچي تھي اگر چہ احسان علي پچاس سے زيادہ ہوچکے تھے، ليکن وہي منڈي داڑھي متبسم آنکھيں اور چھيڑنے والي باتيں، ان کي روح ويسے ہي جوان تھي بچوں کو گلي ڈنڈا کھيلتے ہوئے ديکھتے تو وہيں کھرے ہو کر واہ واہ کرنےلگتے کھلاڑي کو داد دينے لگتے يا امپائر بن کر کھڑے ہو جاتے، کڑکے انہيں کھيل ميں حصہ لينے پر مجبور کرتے، تالياں بجاتے شور مچاتے چچا جي ہمارے آڑي بنيں گے، نہيں ہمارے ايک ہنگامہ بپا ہوجاتا تھا، کھڑکيوں سے محلے والياں جھانکيں لگتين، لو ديکھ لو احسان علي گلي ڈنڈا کھيل رہے ہيں، چق کي اوت ميں سے آواز آتي ہے، بھائي جي کيا پھر سے جوان ہونے کا ارادہ ہے؟ سبز جنگلے سے شاداں سر نکالتي، ابھي تو اللہ رکھے پہلي جواني ختم نہيں ہوئي، شاہ نشين سے چاچي بولتي، توبہ شاداں تو بھي کس رخ سے چين لينے نہيں ديتي، شکر کر احسان کا دھيان کھيلوں سے ہٹا ہے، گلي ڈنڈا کھيلنے ميں کيا عيب ہے، مسجد سے آتا جاتا کوئي محلے دار نہيں ديکھ کر ہنستا، کب تک اس لڑکيوں کے کھيل ميں لگے رہے گے اب خدا کو بھي ياد کرو، احسان علي ہنس کر گنگناتے، وقت پيري گرگ ظالن ميشور پرہيزگار، دوسرا آکر کہتا ہے، دنياواري غلاظت سے اکتائے نہيں ابھي؟صوم صلوتھ کي پاکيزگي کو کيا جانو، احسان کہتے، بابا جي غلاظت کا احساس ہوتو پاکيزگي کي آرزو پيدا ہوتي ہے، تم ميں احساس نہيں کيا، بابا جي پوچھتے ہيں اور وہ جواب ديتے ہيں، احساس تو ہے پر غلاظت بھي ہو، اس بات پر کوئي لاحول پڑھ ديتا اور وہ ہنستے، لو بھائي جي ابن تو شيطان بھي آگيا اور وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔
احسان علي کے آنے سے پہلے محلہ کيسا ويران دکھائي ديتا تھا، اگرچہ موسم سرما ميں دوپہر کے قريب محلے والياں چوگان ميں اکھٹي ہوکر ازار بند بناتي تھي، دوپہر کے قريب جب چوگان ميں دھوپ آتي تو چوکياں بجھ جاتيں مٹي کي ہنڈياں رکھ دي جاتين، جن تيلوں کے مٹھے بھرے ہوتے، بارہ بجے کھانے پينے سے فارغ ہو کر عورتيں وہاں جمع ہوجاتيں، ايک بجے تک اچھا خاصا ميلا لگ جاتا، عجيب آوازيں پيدا کرتے تتلياں ٹکراتيں ازار بند بنتے ہوئے کسي کي بات چھڑ جاتي گلے ہوتے شکايتيں ہوتيں، ايک دم دوسرے پر آواز کسے جاتے مگر قہقہت کي آواز نہ ہوتي، ادھر ڈيوڑھي ميں مسئلے مسائل بات گرم رہتي، شريعت کے احکام بار بار دہرائے جاتے، حديثوں کے حوالے دئيے جاتے، اوليا کرام کي حکايات سنائي جاتيں ہنگامہ تو مگر اس ميں مزاج کي شيرني نام کونہ ہوتي، عورتوں کے مسلسل جھگڑوں اور مردوں کي خشک بخشوں کي وجہ سے وہ مسلسل شور محلہ اور بھي ويران کرديتا، پھر احسان علي پينش لے کے محلے ميں آبے ان کے آنے کے بعد محلے کا رنگ بدل گيا، جب عورتيں ايک دوسرے کے گلے شکوے کرنے ميں مصروف ہوتيں تو احشسان علي نکل آتے اور آتے ہي ايس بات کرتے کہ سبھي ہنس پٹرتيں، اور محفل کا رنگ ہي بدل جاتا طعنے اور تمسخر کي جگہ ہنسي مذاق شروع ہوجاتے، آپس ميں جھگٹرتي عورتين ملکر احشان علي کے خلاف محاذ قايم کرليتيں اور محلے کے چوگان ميں قہقہے گونجتے لگتے محلے کے بزرگ خشک مسائل چھوڑ کر احسان علي کے چٹکلے سننے لگتے، بات بات پر لاحولا پڑھنے والے بڈھے لاحول پڑھنا بھول جاتے ليکن پھر بھي عادت سے مجبور ہر کر کوئي نہ کوئي لاحول پڑھ ديتا اس پر احسان علي کھلکھلکلا کر ہنس پٹرتے، بھائي جان کيا آپ کو بات بات پر لاحول پڑھنے کي ضرورت پٹرتي ہے ہم تو يہ جانتے ہيں کہ شيطان کا خطرہ لاحق نہ ہو لاحوال کا سہار لينے کي ضرورت نہيں پٹرتي، احسان علي کو لاحول سے چڑ تھي، ہاں تو واقعي احسان علي کے آنے پر محلے ميں ايک نئي روح دوڑ گئي تھي۔
پھر ايک روز ايک انوکھا واقعہ ہوا، چوگان ميں عورتيں حسب معمول جمع تھيں، نئي روشني کے نوجوانوں کي بات چل رہي تھي شاداں نےدور سے احسان علي کو آتے ديکھ ليا، چاچي کو اشارہ کر کے باآواز بولي چچي خدا جھوٹ نہ بلائے آج کل تو چھوٹے چھوٹے لڑکے بھي چچا احسان علي بنے ہوئے ہيں راہ چلتي لڑکي کو تاڑتے ہيں، ہائے ہائے چاچي نے شاداں کا اشارہ سمجھنے بغير کہا تم تو خواہ مخواہ اس بے چارے، شاداں نے پھر سے اشارہ دہرايا، جسے ديکھ کر چچي کا غصہ مسکراہٹ ميں بدل گيا، آج کل کے مردوں کي کيا پوچھتي ہو چچي، شاداں نے پھر سے بات شروع کي بال کچھڑي ہوجاتے ہيں، پر عورتوں کو تاڑنے کي لت نہيں جاتي، ہاں شاداں چچي نے منہ بنا کر کہا، زمانہ ہي ايسا آيا ہے، اس کےبعد مجمے پر
Comment