Re: Denmark***
ahan theek : )
Originally posted by Masood
View Post
آنچل تم نے ڈنمارک کی اچھی اور بری باتوں کی نسبت پوچھا ہے۔
پہلے چند اچھی باتیں: مجھے یہاں کی جو بات سب سے اچھی لگی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پر قانون کی بالادستی ہے۔ قانون سب کے لیے یکساں ہے چاہے وہ وزیراعظم ہو یا ایک عام انسان۔ بلکہ آج ہی کی خبر ہے کہ قصائیوں کی تنظیم کے چیرمین نے حکومت پر مقدمہ دائر کیا ہے کہ حکومت جانوروں کی چربی پر جو سبسٹڈی لیتی ہے وہ نا جائز ہے۔ عدالت نے حکومت کو کٹہرے میں طلب کیا ہے اور اب اس پر کیس چلے گا، اگر فیصلہ عدالت میں نہ ہوا تو کیس یورپئین یونین کی عدالت مین بھی جا سکتا ہے۔قانون کی بالادستی کا سبق بچپن ہی سے دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کا پولیس کا محکمہ انتہائی شفاف طور پر کام کرتا ہے حالانکہ پولیس والوں کو یہاں کے معیار زندگی کے مطابق کم ہی تنخواہ ملتی ہے، مگر مجال ہے کوئی رشوت کا سوچے۔
یہاں پر جو وزرأ ہیں وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں اور اگر وہ فاعل نہ ہوں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہ انکا پہلا اور آخری موقع ہوگا۔ یہاں پر ایک وزیراعظم تھا،اس نے ایک عرصہ تک حکومت کی، مگر ساری عمر کرائے کے فلائٹ میں رہا، اور سائیکل پر اپنے دفتر آیا جایا کرتا تھا، وزیراعظم اور سائیکل پر!
حال ہی میں یہاں الیکشن ہوئے اور ایک خاتون وزیربنی، وہ ایک عام سے فلائٹ میں رہتی ہے اور جس دن اسکی وزارت کا اعلان ہوا، اس دن وہ اپنی ذاتی گاڑی جو ایک سکوڈا تھی، جو جہاں سستی گاڑی سمجھی جاتی ہے، اس میں اپنے میاں کے ساتھ اکیلی پارلیمنٹ پہنچی۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو خلفۂ راشدین میں پائے جاتے تھے۔ یہ ان لوگوں نے اپنا لیے ہیں۔
یہاں پر ہر بندہ اپنے اپنے عہدہ کے ساتھ انصاف کرتا ملتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی، موٹروے پر لاکھوں گاڑیاں روزانہ بھاگتی ہیں ہر بندہ اپنی اپنی لائن میں رہ کر اپنی اپنی ڈیوٹی پوری کرتا نظرآئے گا، کوئی یہ نہین کہے گا کہ میں دوسروں سے آگے بڑھ جاؤں اور اسکے لیے کوئی کسی کو ہراساں نہیں کرے گا، ہرن کا استعمال نا ہونے کے برابر ہو گا، اشارے توڑنے کے واقعات اکا دکا ہونگے۔ معاشرے کی ہر شے میں ایک ترتیب ملتی ہے۔ ایک روٹین ہے۔
ہر بندہ جو کام کرتا ہے اسے ہر ماہ کے پیچھے ڈھائی دن کی چھٹی ملتی ہے - یعنی ایک سال میں چھ ہفتے کی چھٹی۔ یونین اسٹرکچر اسقدر مضبوط ہے کہ مجال ہے کوئی کمپنی کسی ملازم کے ساتھ ناانصافی کرے، اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ یہاں پر انسان کو پروٹیکٹ کیا جاتا ہے۔
یہاں پر صفائی بہت ہے۔ گلیاں، بازار، محلے، سڑکیں، موٹرویز ، پارک ہر طرف صفائی کا زبردست انتظام ہے۔
ہسپتال کا نظام بہت اعلیٰ ہے، اسی طرح ٹرانسپورٹ کا بھی ، بسیں، میڑو، ٹرینیں ایک جال کی طرح بچھی ہوئی ہیں۔اور اگر نہیں تو ٹیکسیاں دھندھناتی پھرتی ہیں، یہاں پر مرسیڈیز کو ٹیکسی بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔
انسانی زندگی کا ہر وہ کام جو ممکن ہے وہ انٹرنیٹ پر ہو جاتا ہے، بل جمع کرانے ہوں، بینک کا نظام ہو، سرکاری اداوں کے کام ہوں، ٹیکس کے کام ہوں، پرائیوٹ اداروں کے کام ہوں سب آن لائن اور ای میل کے ذریعے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی دفتر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کئی کئی لاکھ کا قرض ایک ای میل پر مل جاتا ہے۔
اگر آپ یہاں کی نیشنلٹی حاصل کرنا چاہیں تو یہ ممکن ہے، کئی عرب ممالک میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
اور اب بری باتیںَ
مجھے ان کا بے دین ہونا ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضوردعاگو ہوں کہ انہیں اسلام کی روشنی نصیب ہو جائے۔ آمین۔
مجھے یہاں کی بیوروکریسی سے سخت نفرت ہے۔ بعض اوقات ایک سمپل کام کے لیے بہت سارے نظام سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔
مہنگائی بہت ہے۔ مگر معیار زندگی بہت بلند ہے۔
یہودیت کا رنگ چڑھا ہوا ہے، میڈیا یہودیوں کے قبضے میں ہے۔اور یہاں کی عوام میڈیا پر بہت یقین رکھتی ہے۔ اور یہاں کی سیاست امریکہ کی پٹھو ہے۔
بعض اوقات آپریشن کے لیے کافی ٹائم لگ جاتا ہے اور خاص کر بوڑھوں کے آپریشن کا۔
جاب کے حالات بہت تلخ ہو گئے ہیں، اچھے اور قابل لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں
ٹیکسس بہت زیادہ ہیں
یہ تھی چند خاص خاص اچھائیاں اور برائیاں۔
پہلے چند اچھی باتیں: مجھے یہاں کی جو بات سب سے اچھی لگی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پر قانون کی بالادستی ہے۔ قانون سب کے لیے یکساں ہے چاہے وہ وزیراعظم ہو یا ایک عام انسان۔ بلکہ آج ہی کی خبر ہے کہ قصائیوں کی تنظیم کے چیرمین نے حکومت پر مقدمہ دائر کیا ہے کہ حکومت جانوروں کی چربی پر جو سبسٹڈی لیتی ہے وہ نا جائز ہے۔ عدالت نے حکومت کو کٹہرے میں طلب کیا ہے اور اب اس پر کیس چلے گا، اگر فیصلہ عدالت میں نہ ہوا تو کیس یورپئین یونین کی عدالت مین بھی جا سکتا ہے۔قانون کی بالادستی کا سبق بچپن ہی سے دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں کا پولیس کا محکمہ انتہائی شفاف طور پر کام کرتا ہے حالانکہ پولیس والوں کو یہاں کے معیار زندگی کے مطابق کم ہی تنخواہ ملتی ہے، مگر مجال ہے کوئی رشوت کا سوچے۔
یہاں پر جو وزرأ ہیں وہ خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں اور اگر وہ فاعل نہ ہوں تو انہیں علم ہوتا ہے کہ یہ انکا پہلا اور آخری موقع ہوگا۔ یہاں پر ایک وزیراعظم تھا،اس نے ایک عرصہ تک حکومت کی، مگر ساری عمر کرائے کے فلائٹ میں رہا، اور سائیکل پر اپنے دفتر آیا جایا کرتا تھا، وزیراعظم اور سائیکل پر!
حال ہی میں یہاں الیکشن ہوئے اور ایک خاتون وزیربنی، وہ ایک عام سے فلائٹ میں رہتی ہے اور جس دن اسکی وزارت کا اعلان ہوا، اس دن وہ اپنی ذاتی گاڑی جو ایک سکوڈا تھی، جو جہاں سستی گاڑی سمجھی جاتی ہے، اس میں اپنے میاں کے ساتھ اکیلی پارلیمنٹ پہنچی۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو خلفۂ راشدین میں پائے جاتے تھے۔ یہ ان لوگوں نے اپنا لیے ہیں۔
یہاں پر ہر بندہ اپنے اپنے عہدہ کے ساتھ انصاف کرتا ملتا ہے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی، موٹروے پر لاکھوں گاڑیاں روزانہ بھاگتی ہیں ہر بندہ اپنی اپنی لائن میں رہ کر اپنی اپنی ڈیوٹی پوری کرتا نظرآئے گا، کوئی یہ نہین کہے گا کہ میں دوسروں سے آگے بڑھ جاؤں اور اسکے لیے کوئی کسی کو ہراساں نہیں کرے گا، ہرن کا استعمال نا ہونے کے برابر ہو گا، اشارے توڑنے کے واقعات اکا دکا ہونگے۔ معاشرے کی ہر شے میں ایک ترتیب ملتی ہے۔ ایک روٹین ہے۔
ہر بندہ جو کام کرتا ہے اسے ہر ماہ کے پیچھے ڈھائی دن کی چھٹی ملتی ہے - یعنی ایک سال میں چھ ہفتے کی چھٹی۔ یونین اسٹرکچر اسقدر مضبوط ہے کہ مجال ہے کوئی کمپنی کسی ملازم کے ساتھ ناانصافی کرے، اسے لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ یہاں پر انسان کو پروٹیکٹ کیا جاتا ہے۔
یہاں پر صفائی بہت ہے۔ گلیاں، بازار، محلے، سڑکیں، موٹرویز ، پارک ہر طرف صفائی کا زبردست انتظام ہے۔
ہسپتال کا نظام بہت اعلیٰ ہے، اسی طرح ٹرانسپورٹ کا بھی ، بسیں، میڑو، ٹرینیں ایک جال کی طرح بچھی ہوئی ہیں۔اور اگر نہیں تو ٹیکسیاں دھندھناتی پھرتی ہیں، یہاں پر مرسیڈیز کو ٹیکسی بنا کر استعمال کیا جاتا ہے۔
انسانی زندگی کا ہر وہ کام جو ممکن ہے وہ انٹرنیٹ پر ہو جاتا ہے، بل جمع کرانے ہوں، بینک کا نظام ہو، سرکاری اداوں کے کام ہوں، ٹیکس کے کام ہوں، پرائیوٹ اداروں کے کام ہوں سب آن لائن اور ای میل کے ذریعے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی دفتر جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کئی کئی لاکھ کا قرض ایک ای میل پر مل جاتا ہے۔
اگر آپ یہاں کی نیشنلٹی حاصل کرنا چاہیں تو یہ ممکن ہے، کئی عرب ممالک میں ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
اور اب بری باتیںَ
مجھے ان کا بے دین ہونا ناپسند ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حضوردعاگو ہوں کہ انہیں اسلام کی روشنی نصیب ہو جائے۔ آمین۔
مجھے یہاں کی بیوروکریسی سے سخت نفرت ہے۔ بعض اوقات ایک سمپل کام کے لیے بہت سارے نظام سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے۔
مہنگائی بہت ہے۔ مگر معیار زندگی بہت بلند ہے۔
یہودیت کا رنگ چڑھا ہوا ہے، میڈیا یہودیوں کے قبضے میں ہے۔اور یہاں کی عوام میڈیا پر بہت یقین رکھتی ہے۔ اور یہاں کی سیاست امریکہ کی پٹھو ہے۔
بعض اوقات آپریشن کے لیے کافی ٹائم لگ جاتا ہے اور خاص کر بوڑھوں کے آپریشن کا۔
جاب کے حالات بہت تلخ ہو گئے ہیں، اچھے اور قابل لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں
ٹیکسس بہت زیادہ ہیں
یہ تھی چند خاص خاص اچھائیاں اور برائیاں۔
Comment