السلام علیکم
دوستو آج کچھ بات کرتے ہیں انڈوں کے حوالے سے
آؤ بتاؤں تمھیں انڈے کا فنڈا
انڈہ جو
ہمارے ناشے کا ایک لازمی جزو ہے۔
ویسے تو کھانے والا انڈہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک دیسی ایک ولائتی لیکن جب سے
Say No To Racism
کا نعرہ لگنا شروع ہوا ہے تب سے یہ تفریق بھی کم ہوتی ہوتی ختم ہی ہو گئی ہے۔
اب دیسی ہوں یا ولائتی انڈے ہر جگہ باہم شیر و شکر نظر آتے ہیں۔
ابا حضور فرماتے ہیں کہ ان کے دور میں انڈے صرف دیسی ہی ہوا کرتے تھےجو کہ گھر کی پالی ہوئی مرغیاں نہائت جتن اور سو سو نخروں کے بعد ہفتہ دس دن میں ایک دیا کرتی تھیں اور دینےکے بعد پورا گھر یوں سر پر اٹھا لیتیں جیسے لاٹری میں امریکا کا ویزہ مل گیا ہو۔
اور تب انڈے کی قدر بھی تھی۔
میرے بچپن کے ساتھی ننھے میاں کے کمرے میں دیوار پر انڈوں کا چارٹ لگا ہوا ہوتا تھا کسی دور میں۔
جس کا عنوان تھا "انڈوں کی ترتیب"۔
ارے ارے حیران مت ہوں اس کا مطلب یہ نہین کہ ہماری مرغیاں کوئی بے ترتیب شکل و صورت کے انڈے دیا کرتی تھیں بلکہ یہ مرغیوں کا کارکردگی رجسٹر تھا۔
جہاں ہر مرغی کا نام اور اس کے کریڈٹ پر موجود انڈوں کی تعداد درج تھی۔
اس نادر طریقہ کے ذریعے وہ ہر مرغی پر کڑی نگاہ رکھتے۔
اور ان کے خانگی مسائل سے بھی مکمل واقفیت رہتی۔
ایک دن ان کی ایک چہیتی مرغی کو انڈیاتی ہڑتال پر دیکھ کر سوال کیا تو ٹھنڈی آہ بھر کر بولے یار اس کا "بریک اپ" ہو گیا ہے۔
لیکن پر انقلاب زمانہ کے منحوس افریت نے انڈے کو بھی نہ چھوڑا۔
سمارٹ اور ایتھیلیٹ کلاس کی دیسی مرغیوں کی جگہ سومو پہلوان قسم کی ولائتی گوری چٹی مرغیوں نے لے لی۔
دیسی مرغیوں نے بقول شاعر "مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا" لیکن ہارتی چلی گئیں۔
انڈہ جو کہ کسی دور میں کسی خاص مہمان کے لیے ہی دیا جاتا تھا اب روزانہ کی بنیاد پر کھایا جانے لگا۔
اور انڈے کی اس ناقدری نے نئے دور میں ایسے ایسے انڈے پیدا کیے جن کا دور دور تک مرغیوں سے کوئی واسطہ نہ تھا۔
حساب کے ٹیسٹ میں بھی انڈہ مل جایا کرے گا یہ کب کسی نے سوچا تھا۔
اور انڈہ ملنے پر اماں جی بجائے خوش ہونے کے دھلائی کر دیا کریں گی یہ کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا؟
کل ہی ٹیبل ٹینس کھیلتے ہوئے بال ایک زوردار شاٹ کی تاب نہ لاتے ہوئے دار فانی سے کوچ کر گئی تو دوست نے چیک کرکے نعرہ بلند کیا۔
"اوئےےےے انڈہ ٹوٹ گیا ہے۔"
خود سوچئیے کتنے ہی انڈے یہ سن کر خون کے آنسو نہ روئے ہوں گے۔
کرکٹ کے میچ میں جب بیٹسمین صفر پر آؤٹ ہو کر شرمندہ سی شکل بنائے واپس آتا ہے تو کتنے آرام سے کہہ دیا جاتا ہے۔
"تم نے تو انڈہ بھی نہ توڑا۔"
ارے بھئی وہ ہو گا کوئی اولڈ سکول کا بندہ۔ جس دور میں انڈہ توڑنا ایک ناقابل معافی گناہ سمجھا جاتا تھا۔
اور تو اور
حجام کی دکان سے جب کوئی گورا چٹا جوان سر پر استرا پھروا کر نورتن تیل کی مالش کروا کر دو سو واٹ کا بلب بنا باہر نکلتا ہے تو پیچھے سے آواز پڑتی ہے۔
"انڈہ ہے اوئےےے"
تو ساتھ والی دکان کے ریک میں پڑے انڈوں پر کیا گزرتی ہے کوئی نہیں جانتا۔
کل ہی کسی دل جلے انڈے نے فیض کا یہ شعر پڑھ کر مشاعرہ لوٹ لیا۔
نہ جنوں رہا نہ رہی وفا، یہ فرائنگ پین کرو گے کیا
جنہیں انڈہ ہونے پہ ناز تھا وہ گناہ گار چلے گئے
خدا انڈوں کو نشاط ثانیہ نصیب فرمائے
ا
Comment