مقبول فدا حسین کا گمشدہ جوتا ، ایک لمبی تاریخ کا مسافر ہے۔ وہ رے داس کے ساتھ بھی تھا بعد میں میروغالب کے عہد میںنئے رنگ روپ میں نظیر کے یہاں نظرآتا ہے۔ یہ جوتا کافی سفر مزاج سیلانی ہے۔ کبھی یہ بنارس میں رے داس کے مانڈور نامی گاؤں میں اتحاد ویگانگت کے گیت گاتا ہے۔ آگرے میں نظیر کے یہاں انھیں کوئی چراتا ہے ۔
ممبئی میں یہ غیر حاضر ہوکر عدالت سے صحیح فیصلہ کرواتا ہے اور کبھی صدام کے بغداد میں ایک صحافی کے ہاتھ سے دُنیا کی سب سے بڑی طاقت کے منہ پر مارا جاتا ہے۔ بغداد نے اس جوتے کے ذریعے عالمی تاریخ میں ایک نیا باب جوڑا ہے۔ اس باب میں اس نے لکھا ہے جب لغت بے معنی ہوجاتی ہے ۔ الفاظ گونگے ہو جاتے ہیں ۔ سننے والے بہرے ہوجاتے ہیں ، بولنے والے ہونٹ خاموش ہوجاتے ہیں توجانور کی مری ہوئی کھال کا جوتا بولنے لگتا ہے۔ میری رائے ہے کہ ان اُچھالے ہوئے جوتوں کو بغداد سے برِصغیر کے تینوں علاقوں میں مدعو کیاجائے اور ان کے کئی کلونز بنائے جائیں اور بہ وقتِ ضرورت سیاست کو راستہ دکھانے کے کام میں لائے جائیں۔
*******************
جوتوں سے کئی تہذیبی رسموں کا بھی تعلق ہے ۔ شادی بیاہ میں سالیاں ( دلہن کی بہنیں) اکثر دولہا بھائی کا جو جوتا چھپا کر جوتا چھپائی کا نیگ مانگتی ہیں۔ بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے اوراس طرح دولہے سے منہ مانگا انعام لیاجاتا ہے۔ ایک دولہے اس رسم سے واقف تھے اس لئے احتیاطاًوہ ایک جوڑا پہن کر اوردوسرا ایک تھیلی میں چھپا کر لائے تھے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ خود دلہن نے اس طر ف اشارہ کیا اور لڑکیوں نے تھیلی کو بھی غائب کردیا۔ اب دولہا میاں لاچار ہوگئے۔
دولہا کا جوتا جس نے چرایا
مُنہ مانگا اس نے انعام پایا
جوتا نامہ۔۔۔۔۔ ندا فاضلی
ممبئی میں یہ غیر حاضر ہوکر عدالت سے صحیح فیصلہ کرواتا ہے اور کبھی صدام کے بغداد میں ایک صحافی کے ہاتھ سے دُنیا کی سب سے بڑی طاقت کے منہ پر مارا جاتا ہے۔ بغداد نے اس جوتے کے ذریعے عالمی تاریخ میں ایک نیا باب جوڑا ہے۔ اس باب میں اس نے لکھا ہے جب لغت بے معنی ہوجاتی ہے ۔ الفاظ گونگے ہو جاتے ہیں ۔ سننے والے بہرے ہوجاتے ہیں ، بولنے والے ہونٹ خاموش ہوجاتے ہیں توجانور کی مری ہوئی کھال کا جوتا بولنے لگتا ہے۔ میری رائے ہے کہ ان اُچھالے ہوئے جوتوں کو بغداد سے برِصغیر کے تینوں علاقوں میں مدعو کیاجائے اور ان کے کئی کلونز بنائے جائیں اور بہ وقتِ ضرورت سیاست کو راستہ دکھانے کے کام میں لائے جائیں۔
*******************
جوتوں سے کئی تہذیبی رسموں کا بھی تعلق ہے ۔ شادی بیاہ میں سالیاں ( دلہن کی بہنیں) اکثر دولہا بھائی کا جو جوتا چھپا کر جوتا چھپائی کا نیگ مانگتی ہیں۔ بھاؤ تاؤ کیا جاتا ہے اوراس طرح دولہے سے منہ مانگا انعام لیاجاتا ہے۔ ایک دولہے اس رسم سے واقف تھے اس لئے احتیاطاًوہ ایک جوڑا پہن کر اوردوسرا ایک تھیلی میں چھپا کر لائے تھے۔ تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ خود دلہن نے اس طر ف اشارہ کیا اور لڑکیوں نے تھیلی کو بھی غائب کردیا۔ اب دولہا میاں لاچار ہوگئے۔
دولہا کا جوتا جس نے چرایا
مُنہ مانگا اس نے انعام پایا
جوتا نامہ۔۔۔۔۔ ندا فاضلی
Comment